کفایت شعاری کے ليے تجویز، ’حاکم طبقہ قربانی دے‘
25 جنوری 2023انگریزی روزنامہ 'دا نیوز‘ کے مطابق اس کمیٹی نے وزارتوں اور ڈویژنوں کے اخراجات میں 15 فیصد کمی کی بھی سفارش کی ہے جبکہ یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ وفاقی وزراء، وزیر مملکت، مشیروں اور خصوصی معاونین کی تعداد 78 سے کم کر کے صرف 30 کر دی جائے۔ اخبار کی رپورٹ کے مطابق ان تجاویز کو ممکنہ طور پر بدھ کو حتمی شکل دی جا سکتی ہے جس کے بعد انہيں حتمی منظوری کے ليے وزیر اعظم کے پاس بھیجا جائے گا۔
استعفوں کی منظوری: سیاسی بحران سنگین ہونے کا خطرہ
سیاسی جماعتوں میں اختلافی آوازیں
پاکستان میں بجلی کا بڑا بریک ڈاون، کئی شہروں سے بجلی غائب
پاکستان ميں ڈيجيٹل سيکٹر فروغ پاتا ہوا
اخبار کے مطابق این اے سی نے صوبائی نوعیت کے منصوبوں پر فنڈز کا استعمال روکنے اور سرکاری ضمانتوں کے ذریعے قرضے حاصل کرنے کے لیے پبلک سیکٹر انٹرپرائزز پر پابندی عائد کرنے کی بھی سفارش کی ہے۔ اخبار کا دعوی ہے کہ این اے سی نے آئی ایس آئی اور آئی بی سمیت انٹیلی جنس ایجنسیوں کے صوابدیدی فنڈز منجمد کرنے اور دفاعی اخراجات میں کمی کی تجویز پر بھی غور کیا۔
سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کمی کی تجويز
پاکستان میں دس لاکھ سے بھی کم افراد انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ٹیکس دینے والوں میں ایک بڑی تعداد سرکاری ملازمین کی ہے۔ سیاستدانوں کا خیال ہے کہ سرکاری ملازمین پہلے ہی معاشی بدحالی کا شکار ہیں اور ان کی تنخواہوں میں کمی مناسب نہیں۔
جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر مشتاق احمد خان نے ان تجاویز پر ردعمل دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''ایک سے سولہ گريڈ تک کے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں کوئی بہت اچھی نہیں ہیں۔ لہذا تنخواہیں اگر کم کرنی ہیں تو گریڈ سترہ سے اوپر والوں کی کی جائيں۔ اس کے علاوہ ججوں، جرنیلوں، مشیروں اور وزراء کی مراعات کو ختم کریں۔‘‘
دفاعی بجٹ کم کیا جائے
مشتاق احمد خان کے مطابق اس کے علاوہ فوجی بجٹ میں کمی کی جانی چاہیے۔ ''سندھ میں رینجرز اور کے پی اور بلوچستان میں ایف سی کئی برسوں سے تعينات ہے، جس سے صوبائی اخراجات میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور وفاق پر بھی مالی بوجھ پڑتا ہے۔ ایسے قیام کی مدت کا تعین ہونا چاہیے اور یہ غیر معینہ مدت کے ليے صوبے میں قیام پذیر نہیں ہونے چاہیيں۔ دفاعی بجٹ میں سے غیر حربی اخراجات کم ہونے چاہیيں۔‘‘
’آئی پی پیز سے معاہدے منسوخ کيے جائیں‘
سینیٹر مشتاق احمد خان کے مطابق اس کے علاوہ ان عوامل پر بھی غور کیا جانا چاہيے جو ملک کی معیشت کا جنازہ نکال رہے ہیں۔ ''میرے خیال میں انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز یا آئی پی پیز ملک کی معیشت کا جنازہ نکالنے میں پیش پیش ہیں۔ سینیٹ کی ایک کمیٹی میں بتایا گیا تھا کہ صرف ایک سال میں پاور پروڈیوسرز نے معیشت کو ایک ہزار ارب روپے سے زیادہ کا نقصان پہنچایا ہے۔ ان پاور پروڈیوسرز سے ہونے والے معاہدوں کو منسوخ کیا جائے۔‘‘
پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے سابق مشیر برائے فوڈ سیکیورٹی جمشید اقبال چیمہ مشتاق احمد خان کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ پاور پروڈیوسرز معیشت پر بہت بوجھ بن رہے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''اگر دوبارہ بات چیت کر کے ان معاہدوں پر نظر ثانی کی جائے، تو حکومت بہت پیسہ بچا سکتی ہے۔ ہم نے اپنے دور میں ایسے معاہدوں پر بات چیت کرنے کی کوشش کی تھی لیکن انڈپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز بہت طاقتور ہیں۔ لہذا ہماری وہ بات چیت کامیاب نہیں ہو سکی۔‘‘
کثیر سرمائے والے منصوبے
جمشید چیمہ کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ نواز لیگ نے کثیر سرمائے سے جو مختلف پروجیکٹس شروع کیے ہیں، ان سے بھی معیشت کو بہت نقصان ہو رہا ہے۔ ''اگر ایسے معاشی طور پر نقصان دہ پروجیکٹس شروع نہیں کیے جاتے، تو پاکستان کو آج کفایت شعاری کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ اورنج لائن اور میٹرو سمیت کئی ایسے پروجیکٹس ہیں، جن پر ہمیں اربوں روپے کی سبسڈی دینی پڑ رہی ہے۔ اس طرح کے پروجیکٹس مستقبل میں بالکل شروع نہ کیے جائیں۔ جو پہلے سے انفراسٹرکچر موجود ہیں، ہمیں اسی کی مرمت کرنی چاہیے اور اسے بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔‘‘
خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان کی درآمدات پچاس بلین ڈالرز سے بھی زیادہ ہیں، جس کا ایک بڑا حصہ تیل کی درآمد پر لگ جاتا ہے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر قیس اسلم کا کہنا ہے کہ یہ دیکھنا پڑے گا کہ ملکی معاشی حالات آج اس نہج پر کیوں پہنچے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''ہماری امپورٹ کا ایک بڑا حصہ تیل ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ریلوے کو بہتر کریں لیکن ہم نے تیل اور ٹرانسپورٹ لابی کو خوش کرنے کے ليے موٹر ویز اور سٹرکوں کے جال بچائے، جس کی وجہ سے تیل کا استعمال بہت بڑھا۔‘‘
ڈاکٹر قیس اسلم کے مطابق اس کے علاوہ ملک میں لاکھوں کی تعداد میں کاریں چل رہی ہیں۔ ''یا تو کاروں پر پر زیادہ ٹیکس لگائے جائیں یا پھرعوام کو قائل کیا جائے کہ وہ بسوں میں سفر کریں۔ بجائے اس کے کہ پچاس لاکھ کاروں میں ایک کروڑ لوگ سفر کریں۔ ایک لاکھ بسوں میں کرڑوں لوگوں کو سفر کرنا چاہیے۔ اس سے تیل کی درآمد میں بہت حد تک کمی ہو سکتی ہے۔‘‘
’وزراء کی تعداد میں کمی مشکل ہے‘
تاہم کچھ سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ ان ميں سے بہت ساری تجاویز پر عمل درآمد مشکل ہے۔ نیشنل پارٹی کے سینیٹر محمد اکرم بلوچ کا کہنا ہے کہ سیاسی طور پر کسی بھی جماعت کے ليے یہ مشکل ہے کہ وہ وفاقی وزراء کی تعداد کم کرے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''اگر مخلوط حکومت ہوتی ہے، تو وزیر اعظم کو ہر جماعت کو نوازنا ہوتا ہے اور انہیں وزیر یا مشیر لگانے ہوتے ہیں۔ اگر ایک جماعت کی بھی حکومت ہو، تو بھی ہر جماعت کے پچیس سے تیس مرکزی رہنما وزارت چاہتے ہیں اور وزیر اعظم کو انہیں وزارت دینی ہی پڑتی ہے۔‘‘
اکرم بلوچ کے مطابق اٹھارویں ترمیم کے بعد صرف تین وزارتیں وفاقی سطح پر ہونی چاہیيں۔ ''دفاع، خارجہ اور خزانہ کے علاوہ وفاقی سطح پر تمام وزارتوں کو ختم کر دينا چاہیے۔ یہ کوئی منطق نہیں کہ تعلیم، صحت اور ماحولیات سمیت کئی وزارتیں وفاقی اور صوبائی دونوں سطحوں پر کام کر رہی ہیں۔ اس سے معیشت پر بوجھ پڑ رہا ہے۔ اس کے علاوہ اراکین پارلیمنٹ کے ترقیاتی فنڈز بھی ختم ہونے چاہیيں اور یہ فنڈز بلدیات کو ملنے چاہیں۔‘‘