کم عمری میں لڑکی کی شادی’افریقہ آگے نکل جائے گا‘
26 نومبر 2015بچوں کی فلاح و بہبود کے ليے اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف کے مطابق افریقہ میں آج کل کم عمر میں شادیوں کے رجحان میں تیزی آتی جا رہی ہے۔ یونیسف کے مطابق اگر بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو نہ پایا گیا تو 2050ء تک اس براعظم میں ایسی شادیوں کی تعداد دو گنا ہو جائے گی اور اس خطے میں سماجی سطح پر ہونے والی تبدیلیاں بھی قدرے محدود ہیں۔ اس عالمی ادارے کے مطابق آج کل افریقہ میں سالانہ بنيادوں پر ایسی 125ملین شادیاں ہوتی ہیں اور اگر حالات نہیں بدلے تو 2050ء میں یہ تعداد 310 ملین تک پہنچ جائے گی۔
موریطانیہ کی 16سالہ فاطیموتو
’’ میرے والدین نے مجھے بغیر بتائے تیرہ برس کی عمر میں میری شادی طے کر دی تھی۔ مجھے یہ بتایا گیا کہ تمہارا ہونے والا شوہر ایک اچھا انسان ہے تاہم شادی کے بعد مجھ پر واضح ہوا کہ یہ سب ایک جھوٹ تھا۔‘‘ جب فاطيموتو نے اپنی شادی شدہ زندگی کی مشکلات کے بارے میں اپنے والدین کو بتایا تو ان کا جواب تھا، ’’تم ہمارے لیے ایک مسئلہ تھیں۔‘‘ سولہ سالہ فاطیموتو نے مزيد بتايا، ’’مجھے بار بار میکے سے سسرال بھیجا جاتا رہا۔ میں پڑھائی میں بہت اچھی تھی اور ڈاکٹر بننا چاہتی تھی۔ تاہم جب میری والدہ کو یہ احساس ہوا کہ شوہر کی وجہ سے میری جسمانی اور ذہنی حالت خراب ہو رہی تھی تو انہوں نے میرے ساتھ تعاون شروع کیا۔ مجھے امید ہے کہ میں اس بندھن سے اپنی جان چھڑانے میں کامیاب ہو جاؤں گی۔‘‘
سیرا لیون کی پندھرہ سالہ امینہ
امینہ کم عمری میں ہی ایک بچے کی ماں بن چکی ہیں۔ ’’میں چوتھی جماعت میں تھی جب مجھے اسکول جانے سے روک دیا گیا تھا۔ ميں یہ دیکھ کر بہت افسردہ ہو جاتی تھی کہ میری ہم عمر تمام لڑکیاں اسکول جاتی ہیں اور میں کھیتوں میں کام کرتی ہوں۔ مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے کہ کس طرح میری شادی ہوئی۔ میری ایک دوست نے مجھے بہانے سے کھیتوں میں بلایا اور وہاں پر فودے بھی موجود تھا۔ فودے نے مجھے دیکھ کر پسند کیا اور مجھے بھی وہ اچھا لگا۔ پھر ہماری شادی ہو گئی۔ ہمارا بیٹا ابراہیم چھ ماہ کا ہے۔ مجھے کم از کم چھ بچوں کی خواہش ہے۔ مجھے کم عمری میں شادی پر کوئی افسوس نہیں ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ میں نے صحیح فیصلہ کیا تھا کیونکہ مجھے یہ نہیں پتا کہ وہ کون سی عمر ہوتی ہے جب لڑکی کی شادی ہونی چاہیے۔‘‘
جمہوریہ کانگو : سترہ سالہ بریگیٹے
میں تیرہ سال کی عمر میں پہلی مرتبہ ماں بنی تھی۔ حمل کی وجہ سے مجھے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑی۔ میرے شوہر جسٹن اور مجھ میں پندرہ سال کا فرق ہے۔ وہ رنگین مزاج تھا اور دوسری خواتین کےساتھ چھیڑ چھاڑ اسے پسند تھی۔ کچھ عرصے بعد وہ ایک کان میں میں کام کرنے کے لیے چلا گیا۔ پھر 2014ء میں وہ واپس آیا اور میں پھر حاملہ ہو گئی۔ تاہم اس کے بعد وہ پھر چلا گیا اور پھر واپس نہیں آیا۔ مجھے شادی سے کچھ حاصل نہیں ہوا بلکہ صرف میری مشکلات ہی بڑھی ہیں۔ میری والدہ دونوں بچوں کی دیکھ بھال میں میری مدد کرتی ہیں تاہم ان کے وسائل بھی قدرے محدود ہیں۔ میں چاہتی ہوں کہ بچوں کی ذمہ داری میں کوئی میرے ساتھ تعاون کرے تاکہ میں اپنی پڑھائی مکمل کر سکوں۔
دنیا بھر میں ہر سال اٹھارہ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے پندرہ ملین لڑکیوں کی شادیاں کر دی جاتی ہیں۔ براعظم افریقہ میں نائیجیریا وہ ملک ہے، جہاں کم عمری میں لڑکیوں کی شادیوں کی شرح سب سے زیادہ ہے۔