کوئلہ، چین میں توانائی کا ایک اہم ذریعہ
8 اکتوبر 2010باقی دُنیا کی نظریں چین کے کوئلے سے چلنے والے لاتعداد بجلی گھروں سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج پر مرکوز ہیں، وہاں خود چین کے اندر اِن بجلی گھروں کے کوڑے کرکٹ اور کوئلے کی راکھ کو ٹھکانے لگانے کا موضوع دردِ سر بنا ہوا ہے۔ یہ راکھ ہوا، پانی اور زمین کو آلودہ کر رہی ہے۔
پھیکے سرمئی رنگ کے منظر میں گردش کرتی یہ ہوا بار بار گَرد کی نئی تہوں کو اپنے ساتھ اڑا لے جاتی ہے۔ پھر سفید سرمئی رنگ کی یہ گَرد ہوا کے راستے میں آنے والے شمالی چین کے گاؤں شی فَینگ کے تمام مکانوں، کھیتوں، جانوروں اور پودوں پر جا کر جم جاتی ہے۔
زمین کے چھوٹے سے قطعے پر پھل اگانے والی ایک خاتون کسان ہان شُو ہونگ بتاتی ہے کہ ’جب ہوا چلتی ہے تو صورتِ حال ناقابلِ برداشت ہو جاتی ہے، پھر انسان کے لئے باہر کھڑے رہنا مشکل ہو جاتا ہے، انسان اپنی آنکھیں بھی کھلی نہیں رکھ سکتا، سب کچھ بہت ہی گندا ہو جاتا ہے، پورے جسم پر یہ گَرد جم جاتی ہے۔‘
یہ گَرد گاؤں کے نزدیک ہی موجود اُس ایک میٹر بلند ڈھیر سے آتی ہے، جہاں کوئلے سے چلنے والے ایک بجلی گھر سے کوئلے کی راکھ لا لا کر پھینکی جاتی ہے۔ چین میں کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کی بہت بڑی تعداد کی وجہ سے کوئلے کی راکھ اتنی زیادہ پیدا ہو رہی ہے کہ اب صنعتی شعبے کے کوڑے کرکٹ میں یہ پہلے نمبر پر ہے۔
تحفظ ماحول کی علمبردار تنظیم گرین پیس کے مطابق گزشتہ آٹھ برسوں کے دوران چین میں تقریباً ہر ہفتے کوئلے سے چلنے والا ایک نیا بجلی گھر تعمیر کیا جاتا رہا ہے۔ گرین پیس کی چینی شاخ سے وابستہ یانگ آئی لُون کے مطابق آج کل چین سالانہ 370 ملین ٹن کوئلے کی راکھ پیدا کر رہا ہے،’یہ مقدار سال بھر میں چینی شہروں میں بننے والے کوڑے کے دو گنا سے بھی زیادہ ہے۔ یہ اتنی زیادہ ہے کہ اِس سے آپ ہر ڈھائی منٹ بعد ایک سوئمنگ پول کو یا روزانہ پیراکی کے کسی اولمپک اسٹیڈیم کو بھر سکتے ہیں۔‘
شمالی چین میں راکھ قدرتی ماحول اور پانی کے پہلے ہی کم ذخائر کو آلودہ کر رہی ہے۔ یہ راکھ زہریلی بھی ہے کیونکہ اِس کے اندر لَیڈ، کیڈمیم اور دیگر زہریلا مواد شامل ہوتا ہے۔ یہ مادے زمین کے اندر جذب ہو کر پینے کے پانی میں شامل ہو جاتے ہیں اور یوں انسانی خوراک کا حصہ بننے لگتے ہیں۔
گرین پیس کی چینی شاخ نے کوئلے سے چلنے والے چودہ بجلی گھروں پر تحقیق کی ہے اور یہ پتہ چلایا ہے کہ کہیں بھی راکھ کو طے کردہ قواعد و ضوابط کے تحت ٹھکانے نہیں لگایا جاتا۔ راکھ کے زیادہ تر ڈھیر انسانی آبادیوں کے قریب بنائے گئے ہیں۔ منتظمین نے پانچ سو میٹر کے کم از کم فاصلے کا بھی خیال نہیں رکھا۔ دوسری طرف سرکاری ضوابط کے مطابق ساٹھ فیصد راکھ کو دوبارہ قابل استعمال بنایا جا سکتا ہے اور اِس سے مثلاً اینٹیں وغیرہ بنائی جا سکتی ہیں۔ ایسا کیا بھی جا رہا ہے لیکن اِس کی حقیقی شرح تیس فیصد بھی نہیں ہے۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: مقبول ملک