مصالحت نہیں ہو گی، پاکستانی کشمیر بھی بھارت کا حصہ ہے، مودی
12 اگست 2016وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ پینتیس دنوں سے کشمیر میں جاری تشدد سے پیدا شدہ صورت حال کا حل تلاش کرنے کے لیے آج جمعہ بارہ اگست کو پہلی مرتبہ ایک کل جماعتی میٹنگ طلب کی تھی۔ اس میٹنگ میں تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندے موجود تھے لیکن جموں و کشمیر میں سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی نیشنل کانفرنس نے اس میں شرکت نہیں کی۔
امید کی جا رہی تھی کہ حالات کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت اُسی طرح کا ایک کل جماعتی وفد کشمیر بھیجنے کا اعلان کرے گی، جیسا کہ 2010ء میں تشدد کے بعد وزیر اعظم من موہن سنگھ کی حکومت نے بھیجا تھا تاہم مودی حکومت نے اس طرح کا کوئی اعلان نہیں کیا۔
یہ اجلاس اس لحاظ سے بھی انتہائی اہمیت کی حامل تھا کہ حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے جاری تشدد میں اب تک ساٹھ افراد ہلاک اور پانچ ہزار سے زائد زخمی جب کہ اسرائیلی ساخت کی پیلٹ گنوں کا شکار ہوکر ایک سو سے زائد افراد اپنی بینائی سے محروم ہوچکے ہیں۔ ایک ماہ سے زائد عرصے سے جاری تشدد کے سبب کشمیر میں اقتصادی سرگرمیاں بھی ٹھپ پڑی ہیں۔
چار گھنٹے تک جاری رہنے والی اس میٹنگ کے اختتام پر وزیر اعظم نریندر مودی نے پاکستان کو ایک سخت پیغام دیا۔ انہوں نے کشمیر میں گزشتہ برسوں کے دوران ضبط کیے جانے والے ہتھیاروں، ہلاک اور گرفتار کیے جانے والے مبینہ جنگجوؤں کے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے کہا، ’’پاکستان لاکھ جھوٹ بولے، لیکن دنیا اس کے جھوٹے پروپیگنڈے کو تسلیم نہیں کرے گی، پاکستان بھول جاتا ہے کہ وہ اپنے ہی شہریوں پر جنگی طیاروں سے بم برساتا ہے، اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان کو دنیا کے سامنے بلوچستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں لوگوں پر ہونے والی زیادتیوں کا جواب دینا ہو گا۔‘‘
بھارتی وزیر اعظم نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کو ریاست جموں و کشمیر کا حصہ قرار دیتے ہوئے نئی دہلی میں وزارت خارجہ کے افسران کو ہدایت کی کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے لوگ خواہ دنیا کے کسی بھی ملک میں رہتے ہوں، ان سے رابطہ قائم کیا جائے اور ان کی پریشانیوں کے بارے میں معلومات حاصل کر کے عالمی برادری کو ان سے آگاہ کیا جائے۔ سیاسی تجزیہ نگار اسے بھارت کی کشمیر پالیسی میں ایک نئی تبدیلی قرار دے رہے ہیں۔
وزیر اعظم مودی نے واضح لفظوں میں کہا کہ دہشت گردی سے کوئی مصالحت نہیں کی جائے گی۔ انہوں نے کہا، ’’بھارت پوری طاقت کے ساتھ دہشت گردی کا مقابلہ کرے گا کیوں کہ یہ ہماری ذمہ داری ہے، ہم قانون کی حکمرانی پر عمل کرتے ہیں لیکن اسے ہماری کمزوری سمجھنا مخالف طاقتوں کی بڑی بھول ہوگی۔‘‘
مودی نے مزید کہا کہ تشدد، دہشت گردی اور بھارت مخالف سرگرمیوں سے سختی سے نمٹا جائے گا۔ انہوں نے اسی کے ساتھ دعویٰ کیا، ’’بھارت لوگوں کے بنیادی حقوق کا پورا خیال رکھتا ہے جب کہ دہشت گردی کے خلاف بھی بھارت کے قانون جتنے انسانیت پساندانہ ہیں، اتنے دنیا میں کسی دوسری جمہوریت میں نہیں ہیں اور ہماری حکومتوں اور سکیورٹی فورسز نے ان واقعات سے نمٹنے میں ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔‘‘
بھارتی اپوزیشن کی جماعتوں نے کشمیر میں امن کی بحالی کی حکومت کی کوششوں کی تائید کی تاہم اس بات پر زور دیا کہ اعتماد ساز ی کے لئے فوری اقدامات کی سخت ضرورت ہے۔ میٹنگ میں شریک سابق وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کا کہنا تھا کہ حکومت کو یہ ثابت کرنا چاہیے کہ وہ عوام کا خیال رکھنے والی ہے۔کانگریس کے سینئر رہنما اور جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ غلام نبی آزاد کا کہنا تھا کہ ہم اس وقت تک مطمئن نہیں ہوں گے، جب تک زمینی حالات بہتر نہیں ہوجاتے۔
کل جماعتی میٹنگ میں شریک بائیں بازو کے رہنما اور ممبر پارلیمنٹ سیتا رام یچوری نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ کشمیریوں اور حکومت کے درمیان اعتماد کا نظام قائم کرنا ضروری ہے اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے تمام فریقین کو اعتماد میں لیا جانا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیر کے تمام شہری علاقوں سے متنازعہ ’آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ‘ کو ختم کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے وادی میں طویل مدت سے جاری کرفیو ، تشدد اور وہاں ہونے والے جانی نقصان پر بھی گہری تشویش کا اظہار کیا۔