کورونا فوبیا اور گھروں سے کام کرنے والی پاکستانی خواتین
23 اپریل 2020پاکستان میں بھی کورونا وائرس کے وبائی پھیلاؤ نے معمول کی سماجی اور اقتصادی سرگرمیوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ملک میں نافذ لاک ڈاؤن نے مردوں کے ساتھ ساتھ ان خواتین کو بھی متاثر کیا ہے، جو یا تو ملازمت پیشہ ہیں یا پھر اپنا کوئی کاروبار کرتی ہیں۔ گھروں سے کام کرتے ہوئے ان خواتین کو جس طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، وہ ان کے لیے ایک نیا چیلنج بن چکے ہیں۔
گزشتہ ایک عشرے سے تعلیم و تدریس کے شعبے سے وابستہ شگفتہ اسد نے اس بارے میں ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’کورونا وائرس کی وبا کے باعث لاک ڈاؤن سے کئی نئی مشکلات کے ساتھ ساتھ چند مثبت پہلو بھی سامنے آئے ہیں۔‘‘
بچوں کو میٹرک تک تعلیم مہیا کرنے والے سپرنگ بورڈ نامی دو اسکول چلانے والی شگفتہ اسد نے بتایا کہ ان کا ایک اسکول اسلام آباد میں اور دوسرا کلر کہار گاؤں میں ہے۔ ان کا دیرینہ خواب تھا کہ وہ دونوں اسکولوں کے بچوں کو ایک جیسی تعلیم مہیا کریں لیکن شہر میں رہنے والی ٹیچرز کے لیے گاؤں جا کر پڑھانا ممکن نہیں تھا،''اب لیکن لاک ڈاؤن کے دوران آن لائن کلاسز کے باعث یہ ممکن ہو گیا ہے۔ ٹیچرز کی روزانہ آن لائن میٹنگز بھی ہوتی ہیں اور بچوں کو مثبت سوچ اپنائے رکھنے اور ذہنی دباؤ سے بچانے کے لیے باقاعدگی سے اقدامات بھی کیے جاتے ہیں۔‘‘
راولپنڈی میں اڈیالہ کی رہائشی اور انسانی حقوق کے ساتھ ساتھ میڈیا سیفٹی کے لیے کام کرنے والی کارکن فائزہ حسن کا اس بارے میں کہنا تھا،''عام دنوں میں آفس سے تسلسل کے ساتھ کام کرنا بہت بہتر تھا۔ ان دنوں انٹرنیٹ کی کم رفتار بھی مسئلہ بن چکی ہے۔ پورے ملک میں اسکولوں اور کالجوں کی آن لائن کلاسز جاری ہیں، تو ڈیٹا ٹریفک بھی بہت بڑھ گئی ہے۔ اس کے علاوہ ان دنوں کسی مددگار کے نہ ہونے کی وجہ سے گھر کے تمام کام بھی خود ہی کرنا پڑتے ہیں۔‘‘
تاہم فائزہ حسن نے ایک مثبت پہلو کی نشاندہی بھی کی،’’پہلے مجھے اڈیالہ سے اسلام آباد کے سیکٹر جی الیون میں اپنے دفتر تک آنے جانے میں ہی تقریباﹰ تین گھنٹے لگتے تھے۔ اب میرے وہ تین گھنٹے بچ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ طویل عرصے بعد گھر والوں کے ساتھ وقت گزارنے کا بھی اب زیادہ موقع مل جاتا ہے۔‘‘
کوکب زیب خان پچھلے پندرہ برسوں سے مونٹیسری ٹیچر ٹریننگ سے منسلک ہونے کے ساتھ ساتھ ایک یوگا ٹرینر بھی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’لاک ڈاؤن کے دوران گھر سے کام کرتے ہوئے دو سب سے بڑے مسائل انٹرنیٹ اور بجلی کی دستیابی سے متعلق ہیں۔ آن لائن ٹریننگ کے دوران کئی بار بجلی بند ہو جانے سے متعدد ٹیچرز سے رابطہ ختم ہو جاتا ہے۔ پھر جو ٹیچرز آن لائن موجود ہوں، ان کی تو ٹریننگ ہو جاتی ہے لیکن جو آف لائن ہو جاتے ہیں، ان کی بعد میں بجلی آنے پر دوبارہ ٹریننگ کرنا پڑتی ہے۔ میرے لیے یہ عمل بہت تھکا دینے والا بنتا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ جن ٹیچرز کو آن لائن اسائنمنٹ صحیح سمجھ نہ آئے، انہیں بار بار سمجھانا پڑتا ہے۔ اس میں بھی خاصا وقت ضائع ہوتا ہے۔‘‘
کوکب زیب خان کہتی ہیں،''عام دنوں میں اسکول کا کام بعد دوپہر دو بجے تک ختم ہو جاتا تھا۔ اب تو چار پانچ بج جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان دنوں یوگا کی کلاسز بھی آن لائن ہی ہوتی ہیں۔ وہاں بھی انٹرنیٹ کے شدید مسائل پیش آتے ہیں اور کبھی کبھی تو ایک گھنٹے کی کلاس دو گھنٹے میں ختم ہوتی ہے۔‘‘
پاکستان میں ذرائع ابلاغ اور جمہوریت کے موضوع پر کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی کی ڈائریکٹر صدف خان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا،''لاک ڈاؤن کے دوران گھر سے کام کرنا بہت مشکل ہے۔ نہ تو بچوں کو صحیح توجہ مل پاتی ہے، نہ گھر کو اور نہ ہی دفتری کام کو۔ بہت اہم بات یہ بھی ہے کہ ایسی صورت حال خواتین کی ذہنی صحت کے لیے بھی بہت نقصان دہ ہے۔ سارا دن دماغ مختلف کاموں میں الجھا رہتا ہے۔ کئی طرح کے دباؤ، اندیشے اور ڈپریشن مل کر عام انسانوں کے ذہن کو متاثر کرنے لگتے ہیں۔‘‘
صدف خان کے مطابق، ‘‘نئی صورت حال نے لوگوں کو اپنے مسائل کا منظم طریقے سے سامنا کرنا بھی سکھا دیا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ گھر اور آفس کے کاموں سے گھبرا کر جب وہ ڈپریس ہونے لگیں تو انہوں نے صبح آدھ گھنٹہ جلدی جاگنا شروع کر دیا اور یوں ان کا روزمرہ معاملات پر کنٹرول بہتر ہو گیا، ''یہ بات بھی اہم ہے کہ گھر کے کاموں میں میرے شوہر بھی میری کافی مدد کرتے ہیں۔‘‘
اسلام آباد کی ایک پرائیویٹ فرم کی اسسٹنٹ مینجر سائرہ بانو کی عمر چالیس سال ہے۔ ان کے لیے لاک ڈاؤن کے دوران گھر سے کام کرنا انتہائی منفی ثابت ہوا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا،’’خدا کرے کہ جلد حالات بہتر ہوں اور آفس دوبارہ شروع ہو۔ گھر سے کام کرنا تو ایک عذاب ہے۔ سارا دن شوہر، بچوں اور سسرال والوں کی رنگ برنگے کھانوں کی فرمائشیں پوری کرتے کچن میں گزر جاتا ہے اور دفتر کا کام ادھورا رہ جاتا ہے۔ اتنی محنت اور تھکن، لیکن خوش پھر بھی کوئی نہیں۔ الٹا بحث شروع ہو جاتی ہے۔ میں تو بہت دباؤ میں ہوں‘‘۔
پاکستانی خواتین کورونا وائرس کے خوف، لاک ڈاؤن، گھر سے کام کرنے اور خاندانی ذمے داریوں جیسے جیلنجز سے کیسے نمٹ رہی ہیں؟ اپنا کلینک چلانے والی ماہر نفسیات سنعیہ اختر نے اس بارے میں ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ ذہنی دباؤ اور اعصابی تناؤ قوت مدافعت میں کمی کے بڑے اسباب ہیں،’’ گھر میں تقریباﹰ بند رہنے سے، خاص طور پر موجودہ وبائی حالات میں انسان وسوسوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اکیلے پن کا خوف بھی اعصاب کو کمزور کر دیتا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا،''میں تو یہ کہوں گی کہ دنیا کو اس وقت ایک بیماری کی صورت میں ‘کورونا فوبیا' کا سامنا ہے، ہر کسی کو یہ خوف ہے کہ کہیں وہ اس وائرس کا شکار نہ ہو جائے۔ یہ خوف ہی ڈپریشن کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ میڈیا پر سنسنی خیزی اور خاص طور پر سوشل میڈیا پر کورونا وائرس سے متعلق الٹی سیدھی اور غیر مصدقہ خبروں کی بہتات بھی لوگوں کو نفسیاتی طور پر متاثر کر رہی ہے۔ اس وقت عوام کی جسمانی کے علاوہ ذہنی صحت کی حفاظت کے لیے بھی مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ ورنہ لاکھوں پاکستانی ڈیپریشن کا شکار ہو جائیں گے اور اس کے نتائج بھی انتہائی برے ہوں گے۔‘‘