کورونا وائرس: ایشیائی امریکیوں کو نسل پرستی ميں اضافے کا خوف
23 مارچ 2020سارہ بیکر اور بل تشیما کے دادا دادی جاپانی تھے اور گزشتہ تین نسلوں سے یہ لوگ امریکی ہیں۔ دونوں ہی شمال مغربی ریاست واشنگٹن کے سب سے بڑے شہر سیئٹل میں رہتے ہیں اور اس شہر کو امریکا کے کورونا وائرس کے 'ہوٹ اسپوٹ‘ میں بدلتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ اب تک سیئٹل میں کورونا وائرس کا شکار ہو کر 90 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور 1،750 سے زیادہ متاثر ہیں۔
سارہ بیکر اور بل تشیما دونوں ملک کی سب سے قدیم اور سب سے بڑی ایشین امریکی شہری حقوق کی تنظیم جاپانی امریکن سيٹیزنز لیگ (جے اے سی ایل) کے بورڈ میں شامل ہیں۔ جے اے سی ایل کی سیئٹل میں قائم شاخ کے لیے اپنے کاموں کو چھوڑ کر، انہوں نے ایشین امریکیوں کے لیے ایک ایسا فیس بک گروپ شروع کرنے کا فیصلہ کیا، جس کا مقصد کورونا وائرس کے متاثرين کی زندگی اور کاروبار پر پڑنے والے اثرات سے نمٹنے میں ان کی مدد کرنا ہے۔ آن لائن برادری نے صرف 12 دنوں میں 11،000 سے زیادہ صارفین کو جمع کر ليا۔
ایشیائی امریکیوں کے ساتھ بدلتا رویہ
بل تشيما کے مطابق امریکا میں 'اجانب دشمن‘ احساسات پائے جاتے ہیں۔ کوئی بھی واقعہ جو کسی قابل شناخت ریس يا نسل سے متعلق ہو، اسے مختلف انداز سے لیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کورونا وائرس انگلینڈ سے شروع ہوتا، تو بل تشيما کے خیال میں انگريز نسل کے افراد کے خلاف ردعمل مختلف ہوتا۔
بل تشيما کے بقول، ''جب نیا کورونا وائرس پہلی بار منظر عام پر آیا اور اس کے بارے میں چین میں ووہان سے خبریں آ رہی تھیں، سیئٹل میں ابتدائی رد عمل، ہم نے نوٹ کیا کہ بہت سارے لوگ بنیادی طور پر چائنا ٹاؤن سے گریز کر رہے ہیں۔‘‘ سیئٹل میں ایک چائنا ٹاؤن انٹرنیشنل ڈسٹرکٹ، جس کی شناخت (C) ہے، موجود ہے اور وہاں صرف چینی باشندے ہی نہیں بلکہ ویت نامی باشندوں کی ایک بہت بڑی تعداد بھی ہے۔ اور وہاں بہت سارے فلپائنی بھی آباد ہیں۔
چائنا ٹاؤن کی شناخت چھوٹے خاندانی کاروبار ہیں اور ايسے کاروبار کرنے والوں کا انحصار مقامی گاہکوں پر ہوتا ہے۔ سارہ بیکر نے کورونا بحران شروع ہوتے ہی فیس بک پوسٹس شائع کرنا شروع کر دی تھيں، جن میں اس افسوسناک صورتحال پر روشنی ڈالی گئی کہ چائنا ٹاؤن کا کاروبار کتنا ٹھنڈا پڑ گيا ہے اور اس سے مقامی باشندے کس قدر متاثر ہو رہے ہیں۔
ک م / ع ا، نيوز ايجنسياں