کورونا ویکسینیشن میں حائل رکاوٹیں
13 جنوری 2021کورونا وائرس کے خلاف ویکسین کی دریافت توکئی ہفتوں پہلے ہو چکی ہے لیکن اس کے لگانے میں سست روی پائی جاتی ہے۔ بعض ناقدین کا خیال ہے کہ ویکسینیشن پروگرام کو کچھ رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
ان میں سب سے اہم مسئلہ ویکسین کی سپلائی ہے۔ یورپی یونین میں کورونا خوراکوں کی ترسیل ابھی تک امیدوں کے مطابق شروع نہیں ہو سکی ہے۔ اس کی فراہمی امید سے بھی کم محسوس کی گئی ہے۔کورونا وائرس، پاکستان بارہ لاکھ ویکسین خوراکیں خریدے گا
سپلائی میں سست روی
فراہمی کے تناظر میں کئی حکومتوں کا خیال ہے کہ ابتدا میں ویکسینیشن پروگراموں کے لیے سپلائی کسی حد تک کم ہوتی ہے لیکن اس میں بتدریج اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ جرمن دارالحکومت برلن سے لے کر نیویارک سٹی تک ویکسین کے مراکز پہلے قائم کیے جا چکے ہیں۔
ان مراکز کو توقع سے بھی کم ویکسین کی فراہمی ہوئی۔ دوسری جانب اسرائیل اور برطانیہ میں ویکسینیشن پروگرام بڑی سُرعت کے ساتھ جاری ہے اور خاص کر اسرائیل سب سے آگے ہے۔
جرمن دوا ساز ادارے پر دباؤ
دنیا بھر میں سب سے پہلی جس ویکسین کی ہنگامی استعمال کے لیے منظوری دی گئی تھی، وہ امریکی انٹرنیشنل فارماسوٹیکل کمپنی فائزر اور جرمن دوا ساز ادارے بائیو این ٹیک کی مشترکہ کوششوں کا نتیجہ تھی۔ سب سے پہلے امریکا اور چند ممالک نے اس ویکسین کے استعمال کی منظوری دی۔بائیو این ٹیک فائزر ویکسین کے عالمی سطح پر استعمال کی اجازت
یورپی یونین کے ریگولیٹر نے ویکسین کو استعمال کرنے کی منظوری اکیس دسمبر کو دی اور اُسی دن یورپی یونین نے بھی اس توثیق کر دی مگر ویکسینیشن کے لیے ستائیس دسمبر کی تاریخ مقرر کی گئی۔ ایک ہفتے کی تاخیر بھی سپلائی کے تناظر میں تھی۔
اس تناظر میں جرمن ادارے کو بڑی تعداد میں خوراکوں کی فراہمی کا سامنا کرنا پڑا اور اسے شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اب اس کی تیاری کے لیے ایک اور مرکز قائم کر دیا گیا ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ جلد ہی ویکسین کی سپلائی میں بہتری ممکن ہے۔
ویکسین کی مانگ بے پناہ
یورپی یونین کو جرمن کمپنی کی ویکسین کی فوری طور پر چھ سو ملین خوراکوں کی ضرورت تھی۔ دوسری جانب امریکی ریاست نیویارک کے گورنر اینڈریو کیومو کا کہنا ہے کہ گیارہ جنوری تک انہیں صرف ایک ملین خوراکیں فراہم کی گئی جب کہ چار ملین افراد کو ویکسین کی ضرورت ہے۔ایران میں امریکا اور برطانیہ کی ویکسین پر پابندی
اب دو اور ویکسینز موڈیرنا اور اسٹرازینیکا آکسفورڈ کے ہنگامی استعمال کی منظوری دے دی گئی ہے۔ امید ہے کہ ان کی ویکسینز کی عالمی سپلائی میں شامل ہونے سے صورت حال قدرے بہتر ہو جائے گی لیکن ابھی تک تین مختلف کمپنیوں کی ویکسینز مارکیٹ میں ہیں لیکن سپلائی بہتر نہیں دکھائی دے رہی۔
ادھر بھارت بھی چند روز بعد ویکسینیشن شروع کرنے والا ہے اور اس باعث اسٹرا زینیکا اکسفورڈ ویکسین کی سپلائی متاثر ہو سکتی ہے۔
ایک اور پریشانی
ایک اہم سوال یہ ہے کہ ویکسین کی خوراک جس بوتل میں ڈالی جاتی ہے، وہ بورو سیلیکیٹ شیشے کی بنی ہوتی ہے۔ ایسی بوتلیں بنانے کی دنیا میں چند ہی کمپنیاں ہیں اور کیا وہ ساری دنیا کی ویکسین سپلائی کا بوجھ برداشت کر سکیں گی۔؟
ایک جرمن کمپنی شاٹ (Schott) کا کہنا ہے کہ وہ ملک میں بورو سیلیکیٹ بوتلوں کی فراہمی میں رکاوٹ پیدا نہیں ہونے دے گی اور یہ کمپنی رواں برس کے دوران دو بلین بوتلیں فراہم کرنے میں کامیاب رہے گی۔کورونا وائرس کی ابتدا کیسے ہوئی؟ ماہرین چین کے دورے پر
ابھی تک بڑی عمر کے افراد کو ہی ویکسین لگانے کا عمل جاری ہے۔ اس مناسبت سے دفتری امور بھی ایک رکاوٹ خیال کیے جا رہے ہیں۔ فرانس میں ویکسین لگوانے والوں کی تمام تر تفصیلات درج بھی کی جاتی ہیں۔
ویکسین مخالفین کا واویلا
کورونا ویکسین کے مخالفین بھی زور شور سے اپنا پراپیگنڈا جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی بیان بازی بھی ویکسینیشن کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا کر رہی ہے۔ دوسری جانب ان ویکسینز کے حوالے سے محققین، معالجین اور ریگولیٹری اداروں کا کہنا ہے کہ ان کا استعمال مفید، مناسب اور بے ضرر ہے۔بھارت: لوگوں کو اندھیرے میں رکھ کر ویکسین کا تجربہ
ایک تازہ سروے کے مطابق مشرقی یورپی ملکوں میں ویکسین لگانے سے کئی افراد انکار کر چکے ہیں۔ ایسے انکاری افراد کی سب سے بڑی تعداد ہنگری سے تعلق رکھتی ہے۔ اسی طرح ان ملکوں میں ہیلتھ ورکرز بھی ویکسین لگوانے پر پچکچاہٹ اور تذبذب کا شکار ہیں۔ جاپان کو بھی ویکسینز پر عوامی بد اعتمادی کا سامنا ہے۔
ع ح، ع ا (اے ایف پی)