کورونا کے معاملے پر ٹرمپ اور بائیڈن میں زبردست تکرار
16 اکتوبر 2020صد ٹرمپ میں کووڈ۔ 19 کی تشخیص ہونے کے بعد دونوں صدارتی امیدواروں کے درمیان براہ راست مباحثے کا پروگرام منسوخ کردیا گیا تھا۔ جبکہ صدر ٹرمپ نے منتظمین کی ورچوئل مباحثے کی تجویز ماننے سے انکار کردیا جس کے بعد دونوں رہنماوں نے دو مختلف شہروں میامی اور فلیڈیلفیا سے ٹاون ہال تقریریں کیں۔ انہیں ایک ہی وقت میں ٹیلی ویزن پر نشر کیا گیا۔
خیال رہے کہ امریکا میں دنیا میں کورونا کے سب سے زیادہ کیسز اور ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ اب تک 82 لاکھ سے زائد افراد متاثر اور دو لاکھ 22 ہزار سے زائد ہلاک ہوچکے ہیں۔
'میں صدر ہوں‘
ڈیموکریٹک امیدوار بائیڈن نے الزام عائد کیا کہ صدر ٹرمپ نے کورونا وائرس کی ہلاکت خیزی کو امریکی عوام سے چھپایا ہے جو دو لاکھ سے زائد امریکیوں کو ہلاک کر چکا ہے۔ بائیڈن نے کہا”وہ کہتے ہیں انہوں نے کسی کو نہیں بتایا کیونکہ امریکی گھبرا جاتے، امریکی نہیں گھبراتے، وہ خود گھبرا گئے۔"
دوسری طرف ریپبلیکن صدر ٹرمپ نے کورونا سے نمٹنے کے لیے اپنی حکمت عملی اور ذاتی طور پر کورونا سے متاثر ہونے کے بعد کیے جانے والے اقدامات دونوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا ”میں صدر ہوں۔ مجھے لوگوں سے ملنا پڑتا ہے۔ میں کسی تہہ خانے میں نہیں رہ سکتا۔"
خیال رہے کورونا سے متاثر ہونے کے بعد صدر ٹرمپ کے وائٹ ہاوس واپسی پر ماسک اتارنے اور وائٹ ہاوس کے روز گارڈن میں ہی ایک تقریب منعقد کرنے، جس میں بہت کم افراد نے ماسک پہن رکھا تھا، پر صدر ٹرمپ پر کافی تنقید کی جا رہی ہیں۔
ٹرمپ نے اس سوال کا بھی جواب نہیں دیا کہ وہ آخری مرتبہ جانچ میں کب نگیٹیو پائے گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں یہ ٹھیک سے یاد نہیں ہے۔
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انہوں نے ماسک کی افادیت کے متعلق 'بہت سی مختلف کہانیاں‘سنی ہیں۔ اس کے باوجود ان کی اپنی انتظامیہ کے صحت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ماسک پہننے سے وائرس کو روکنے میں کافی مدد ملتی ہے۔
صدر ٹرمپ اور سابق نائب صدر جو بائیڈن کے درمیان دوسرا صدارتی مباحثہ جمعرات کو ہونا تھا لیکن صدر ٹرمپ کے کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے بعد منتظمین نے اس کو ایک ورچوئل مباحثے میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا جس پر صدر نے اس میں حصہ لینے سے انکار کر دیا۔
بائیڈن آگے
دونوں صدارتی امیدواروں کے درمیان تیسرا اور آخری مباحثہ 22 اکتوبر کو نیش ویل میں ہو گا۔ صدر ٹرمپ کورونا کا علاج کرانے کے بعد اپنی الیکشن مہم پر واپس آچکے ہیں اور وہ اس دوڑ میں سبقت حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔
روئٹرز اور آئی پی ایس او ایس پولز کے مطابق بائیڈن کو اب تک ان پر واضح برتری حاصل ہے گو کہ ابھی تک ان ریاستوں کا زیادہ نتیجہ سامنے نہیں آسکا جہاں سخت مقابلہ متوقع ہے۔ کئی امریکی ریاستوں میں ابھی سے قبل از ووٹنگ کے ذریعے ووٹ ڈالے جا رہے ہیں۔
یونیورسٹی آف فلوریڈا کے یو ایس الیکشن پروجیکٹ کے مطابق امریکہ میں قبل از وقت ووٹنگ یعنی پوسٹل ووٹنگ میں اب تک ایک کروڑ اسی لاکھ سے زائد امریکی اپنے ووٹ کا حق استعمال کر چکے ہیں، جو کہ سال 2016 کے انتخابات میں پول کیے جانے کل ووٹوں کا تقریباً 13 فیصد بنتا ہے۔ ووٹرز کورونا کی وجہ سے ووٹنگ کے لیے قطاروں میں لگنے سے گریز کر نا چاہتے ہیں اور ڈاک سے ووٹ کے طریقے کا استعمال کر رہے ہیں۔
بعض تجزیہ کاروں کو تشویش ہے کہ صدر ٹرمپ ڈاک سے بھیجے جانے والے ووٹوں کو ماننے سے انکار کر سکتے ہیں کیونکہ وہ پہلے بھی اس کو فراڈ قرار دے چکے ہیں۔
ج ا/ص ز (روئٹرز)