لیجنڈری اداکارہ بشری انصاری نے اداکار ہمایوں سعید کو "آپا" کہنے سے روک دیا ہے۔ تصویر کا دوسرا رخ دیکھیں تو ہمارے معاشرے کی کچھ خواتین ایسی ہیں کہ جنہیں ان کے ناموں سے پکارا جائے تو وہ سیخ پا ہو جاتی ہیں۔ خواتین کی کثیر تعداد ایسی ہے کہ انہیں گڈ مارننگ کے میسجز بھیجے جائیں تو وہ اس بات کو ہراسمنٹ کے زمرے میں لے جاتی ہیں اور کئی ایسی ہیں کہ اگر اگنور کیا جائے تو احساس کمتری کے باعث وہ خود ہی ڈپریشن کا شکار ہوجاتی ہیں۔
گزشتہ دنوں وصی شاہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بشریٰ انصاری نےدلچسپ انکشاف کیا ہے کہ اب انہوں نے ہمایوں سعید کو انہیں" آپا" کہنے سے روک دیا ہے۔ بشریٰ انصاری ایک بہترین سنگر ہیں، اور شاندار اداکاری کر سکتی ہیں۔ وہ یقینی طور پر ایک لیجنڈ ہیں۔ اداکارہ کے مطابق شوبز انڈسٹری میں گزشتہ 20 یا 30 سال سے آپا کہنے کا رواج چلا آ رہا ہے اور یہ لفظ خاتون کو عزت دینے کے لیے کہا جاتا ہے۔ سینیئر اداکارہ کے مطابق آج کل کی اداکاراؤں کو آپا کہ کر دیکھیں تو کیا ہوتا ہے؟ اور انہوں نے مزاحیہ انداز میں کہا کہ ہانیہ عامر کو آپا کہیں اور دیکھیں کہ رد عمل کیا آتا ہے؟
یہ بشری انصاری کا نظریہ ہے۔ تصویر کا دوسرا رخ دیکھیں تو شوبز انڈسٹری سے جڑی سینئر نامور خواتین کو اگر اینکر پرسن، کیمرہ مین یا ٹیکنیشن آپا یا میڈیم کہے بغیر براہ راست ان کے ناموں سے پکاریں تو وہ یقیناً سیخ پا ہو جائیں گی۔
میری نظر میں تعلیم، سیاست، کھیل، تجارت، تھیٹر،گلیمرس سے بھرپور فیشن انڈسٹری اور دیگر میدانوں میں خواتین کا موڈ ایک سا نہیں رہتا۔ ان میں موڈ سوئمنگ عام سی بات ہے۔ خواتین کو سمجھنا اگرچہ دنیا کا مشکل ترین کام ہوسکتا ہے۔خواتین کیا چاہتی ہیں؟ وہ کس بات سے خوش ہوتی ہیں؟ صدیوں سے ان سوالات کے جوابات ایک پہیلی بنے ہوئے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ماہرین نفسیات نے اس معمہ کو حل کرنے کی کوشش میں جو جواب دئیے وہ ادھورے جواب رہے ہیں۔
اس ضمن میں مشتاق احمد یوسفی کے بقول کہ سنتے چلے آئے ہیں کہ آم، گلاب اور سانپ کی طرح عورتوں کی بھی بے شمار قسمیں ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آم اور گلاب کی قسم کا صحیح اندازہ کاٹنے اور سونگھنے کے بعد ہوتا ہے لیکن آخر الذکر خالص مشک کی طرح اپنی قسم کا خود اعلان کر دیتی ہے۔
مزید برآں وجود ِزن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ والا شعر بھی علامہ اقبال نے زمینی حقائق کو بھانپ کر ہی کہا ہوگا کیونکہ خواتین کا مزاج، پسند ناپسند، عادات اور مختلف مواقع پر ردعمل کے اظہار کی حالتیں اور کیفیات کے متعلق یہی بات زبان زد عام ہے کہ عورت کے کئی روپ ہیں۔
میں سمجھتی ہوں کہ بعض خواتین کی یہ خام خیالی ہوتی ہے کہ مرد حضرات ان میں دلچسپی لیتے ہیں اور اگر کوئی سماجی اقدار کے پیش نظر مسکرا کر بات بھی کرلے تو وہ سمجھتی ہیں کہ وہ شخص تو ان سے بہت متاثر ہوا ہے۔ گڈ مارننگ، گڈ نائٹ کے میسجز موصول ہونے پر وہ اس ایکٹ کو ہراسانی کے زمرے میں لے جاتی ہیں۔ لہذا دوسری بار ایسا کرنے کی پاداش میں اسے خوب کھری کھری سنائی جاتی ہے کہ زمین و آسمان کے قلابے ملا دئیے جاتے ہیں۔
لیکن اگر وہی شخص کسی دوسری خاتون کو مذکورہ بالا پندونصائح کے تناظر میں اگنور کرے تو اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس مرد کے نخرے بہت زیادہ ہیں۔ اب بندہ جائے تو کس طرف جائے؟
میرا یہ بھی خیال ہے کہ کچھ خواتین کو چونکہ بننے سنورنے کا ذرا شوق نہیں ہوتا۔ وہ اس بات سے بے نیاز رہتی ہیں کہ وہ کیسی لگ رہی ہیں۔ سارا دن سر جھاڑ اور منہ پہاڑ، ان کی شکلوں سے بیزار ان کے شوہر ٹی وی پر کترینہ کیف اور دیپکا جیسی اداکاراﺅں کو دیکھ دیکھ کر متاثر ہوتے رہتے ہیں مگر ان خواتین کو اس بات کی بالکل پروا نہیں ہوتی۔ وہ اپ ٹو ڈیٹ رہنے کو ترجیح نہیں دیتیں۔ لوگ اگر ان کو خوف دلوائیں کہ تمہارے اس گیٹ اپ سے تنگ آکر تمہارا شوہر دوسری شادی کرلے گا، تو بھی ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی اور جب ان کے شوہر کسی اور خاتون کی اداؤں پر مر مٹتے ہیں تو پھر یہی کہتی ہیں کہ اف میں مر گئی۔
چند خواتین اگرچہ لڑائی جھگڑے کو ناپسند کرتی ہیں لیکن اگر لڑائی کے دوران شوہر کی طرف سے کوئی جارحانہ جواب نہ دیا جا رہا ہو اور مکمل خاموشی ہو تو یہ بات نفسیاتی طور پر خواتین کو شدید اضطرابی فیز میں لے جاتی ہے۔ خواتین نفسیاتی طور پر چاہتی ہیں کہ لڑائی کے دوران ان کے ایکشن کا شوہر کی جانب سے کوئی ری ایکشن آئے اور وہ قطعاً چپ نہ بیٹھیں۔ ایسے میں مرد کی مکمل خاموشی خواتین کے لیے ناقابل برداشت ہوتی ہے بلکہ درد سر بن جاتی ہے۔
بعض خواتین فیشن جیولری اور ملبوسات کی اتنی دلدادہ ہوتی ہیں کہ اگر ان کے شوہر انہیں شاپنگ نہ کرائیں تو یہ بہت مایوس ہو جاتی ہیں۔ اپنی دوست یا پڑوسن کا نیا جوڑا اور جیولری جو ان کی کمزوری ہوتی ہے، دیکھ کر یہ شش و پنج میں مبتلا ہو جاتی ہیں کہ آخر یہ تعیشات ان کے پاس کیوں نہیں۔ ان کے شوہروں کا ذیادہ تروقت ان کو شاپنگ کروانے اور منانے میں گزرتا ہے شاپنگ کرکے صلح کر لینے پر وہ کہتی ہیں کہ مہنگائی میں اتنا خرچہ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟
خواتین کے پل میں تولہ اور پل میں ماشہ ہونے والے مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ خواتین کی ذہنی سطح تک رسائی کے لیے اس کی نفسیات کو سمجھنا ضروری ہے۔ وہ جب کہے کہ "آل از گڈ" اس کے کہے ہوئے لفظوں پر من و عن یقین کرنے کے بجائے اس کی کیفیت کو محسوس کیا جائے۔
خواتین بھلے ایسٹ کی ہوں یا ویسٹ کی ستائش اور چاہے جانے کی تمنا کا جذبہ اس کے اندر فطری طور پر پنہاں ہوتا ہے۔ ان کی ازلی خواہش ہے کہ انہیں سراہا جائے، ان کی انفرادی حیثیت کو تسلیم کیا جائے، انہیں اہمیت دی جائے۔ وگرنہ احساسِ کمتری میں مبتلا خواتین نفسیاتی پیچیدگیوں کا منبع بن جاتی ہیں۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔