کیا پاک امریکا تعلقات میں رومانس ختم ہونے جا رہا ہے؟
4 اگست 2021پاکستان کے مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف نے حال ہی میں امریکا کا دورہ کیا تھا لیکن پاکستان میں یہ تاثر ہے کہ ان کے دورے کے نتیجے میں پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں کوئی خاص گرمجوشی نہیں آئی۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان تناؤ بڑھ رہا ہے اور امکان ہے کہ آنے والے وقتوں میں اس تناؤ میں مزید اضافہ ہو گا۔
اسلام آباد کی قائداعظم یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکٹر ظفر نواز جسپال کا کہنا ہے کہ امریکا کو احساس ہو چکا ہے کہ پاکستان کا طالبان پر اتنا اثر رسوخ نہیں ہے جتنا ماضی میں تھا۔ اسی لیے اب وہ افغانستان میں ناکامی کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''امریکا افغانستان میں جنگ بندی چاہتا ہے، جس کی پاکستان نے کوشش بھی کی لیکن طالبان اب پاکستان کی ہر بات ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ کیونکہ ان کے تعلقات چین، روس اور دوسرے ممالک سے بھی ہیں اور حال ہی میں چین نے ان کا پرتپاک استقبال کیا ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر امریکا پاکستان کو زیادہ اہمیت نہیں دے رہا، جس کی وجہ سے مشیر برائے قومی سلامتی کو علی اعلان مختلف آپشنز کی بات کرنی پڑی۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ واشنگٹن اور اسلام آباد کے تعلقات کو بھارت امریکا تعلقات کے تناظر میں بھی دیکھنا چاہیے، ''جیسے جیسے چین کا گھیرا تنگ کرنے کے لیے بھارت اور امریکا میں تعلقات بڑھیں گے، ویسے ویسے پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں مزید تناؤ پیدا ہو گا۔ امریکا پاکستان کو عسکری اور دیگر امداد کے معاملے میں مدد نہیں دے گا تو ایسے میں پاکستان کے پاس روس اور چین کا ہی آپشن رہ جاتا ہے۔‘‘
پشاور یونیورسٹی کے ایریا اسٹڈی سینٹر کے سابق سربراہ ڈاکٹر محمد سرفراز خان کے مطابق امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان افغانستان میں جنگ بندی کے لیے اپنا کردار ادا کرے لیکن پاکستان اتنا مؤثر کردار ادا نہیں کر رہا، جس کی وجہ سے واشنگٹن اور مغرب میں اسلام آباد کے خلاف ناراضی بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''اس کے علاوہ طالبان جس طرح عام شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ مغرب اور امریکا نے بیس سال میں، جو ریاستی ڈھانچہ کھڑا کیا تھا، طالبان اس کو تباہ کر رہے ہیں اور واشنگٹن میں یہ تصور ہے کہ طالبان کو پاکستان کنٹرول کر سکتا ہے لیکن پاکستان ان کو کنٹرول کرنے کی کوشش نہیں کر رہا۔ اس کی وجہ سے اسلام آباد کے خلاف غصہ بڑھتا جا رہا ہے اور آنے والے وقتوں میں اسلام آباد اور واشنگٹن کے تعلقات میں مزید تلخی آئے گی۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ طالبان، جس طرح 'غیر انسانی سزائیں‘ دے رہے ہیں، اس کی وجہ سے مغربی رائے عامہ میں ان کے خلاف بہت نفرت پائی جاتی ہے، ''نہ صرف افغانستان کی اور خطے کی خواتین افغان طالبان کی ممکنہ کامیابی پر خوفزدہ ہیں بلکہ مغرب کی خواتین بھی افغانستان میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور خواتین کے خلاف تشدد کو تشویش کی نظر سے دیکھ رہی ہیں اور ایسے میں امریکا اور مغربی ممالک پر یہ دباؤ ہے کہ وہ پاکستان کو اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کا کہیں۔‘‘
کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی سابق سربراہ ڈاکٹر طلعت اے وزارت کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اب افغانستان کے استحکام کے لیے امریکا کی طرف دیکھنا نہیں چاہیے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''واشنگٹن نے اپنی پوزیشن واضح کر دی ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتا ہے، جو چین کا دشمن ہے اور بھارت اور امریکا مل کر چین کے گرد گھیرا تنگ کرنا چاہتے ہیں۔ اگر افغانستان میں استحکام ہوتا ہے تو اس سے چین، سی پیک اور بی آر آئی کو فائدہ ہو گا، جو امریکا کسی صورت نہیں چاہتا۔‘‘
ڈاکٹر طلعت وزارت کے بقول پاکستان کو امریکا کی پروا نہیں کرنی چاہیے بلکہ روس، چین، ایران اور خطے کے دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر افغانستان میں استحکام پیدا کرنا چاہیے۔ ان کے مطابق اس سے نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کو فائدہ ہو گا۔