کیا پاکستان کا مستقبل حال سے مختلف ہو گا؟
15 نومبر 2022
ایک ایسے وقت میں، جب صوبائی اور وفاقی دونوں سطحوں پر ہر طرح کا سیاسی توڑ جوڑ واضح نظر آ رہا ہے، پاکستان کا نوجوان طبقہ ملک میں مثبت تبدیلی کا خواہاں اور منتظر نظر آتا ہے۔ کیا پاکستان کی نئی نسل کا کسی امید بہار کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے گا؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے ڈوئچے ویلے نے پاکستان کے چند سیاسی تجزیہ کاروں، ماہرینِ تعلیم اور سیاسی مبصرین سے بات چیت کی ہے۔
نظام تعلیم میں خرابی
ڈاکٹر اختر حسین سندھو ایک سینیئر سیاسی تجزیہ کار اور ماہر تعلیم ہیں۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ گفتگو میں واضح الفاظ میں کہا، ''میرے خیال میں پاکستان میں آئندہ سو برسوں میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ دنیا کے ہر معاشرے کی ترقی اور استحکام کا دار و مدار وہاں کی افرادی قوت پر ہوتا ہے۔ ڈاکٹر سندھو کے بقول،'' ہیومن ریسورسز کا گڑھ اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں ہوتی ہیں۔ جب ان اداروں میں قانونی بے راہ روی اور ذاتی مفادات کی دوڑ کے سوا کچھ نہیں ہو گا تو وہاں کی نوجوان نسل کتنے بھی خواب دیکھ لے، کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی۔‘‘
ڈاکٹر اختر حسین سندھو کا کہنا ہے کہ پاکستان میں تعلیمی اداروں کا یہ حال ہے کہ یہاں اساتذہ اور انتظامیہ کی مختلف آسامیوں کی بھرتیاں بھی ارباب اختیار اور بے پناہ اثرو رسوخ رکھنے والوں کی مرضی سے ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جس معیار کی تعلیم ہو گی اُسی معیار کی لیڈرشپ جنم لے گی۔ تجزیہ کار سندھو نے اپنے بیان میں کہا،''تعلیمی معیار کی پستی کا نتیجہ یہ ہے کہ معاشرے میں انتہا پسندی سرایت کر چکی ہے۔ مذہبی جماعتیں ہوں یا دیگر سیاسی پارٹیاں ہر طرف انتہا پسندی کا رجحان پایا جاتا ہے۔‘‘
قیادت کا بحران
ڈاکٹر اختر حسین سندھو نے تعلیمی نظام کے نقائص کو جس طرح پاکستان کی موجودہ اور مستقبل کی صورتحال سے جوڑا، اُس کی تائید کراچی یونیورسٹی کے شعبہ انٹرنیشنل ریلیشنز سے منسلک تجزیہ کار ڈاکٹر نعیم احمد بھی کرتے ہیں۔ ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ تعلیمی ادارے طلباء کو کسی ملک کی مستقبل کی قیادت کے لیے تیار کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، وہ ایسے مواقع فراہم کرتے ہیں، جو ان کے طلبا کی ممکنہ صلاحیتوں کو پروان چڑھائیں اور ان کی شخصیت کو پالش کریں۔
سیاسی جماعتوں کی دھندلاتی ہوئی جمہوریت اور پاکستانی خواتین
تعلیمی ادارے کسی بھی انسانی معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور مستقبل کی قیادت کی نشوونما اور ترقی کے لیے ان کا کردار غیر معمولی اہیمت کا حامل ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، تعلیمی ادارے مختلف حالات، رویوں اور سلوک کو سامنے لاتے ہیں، جو سماجی، اقتصادی اور سیاسی ترقی کو فروغ دینے اور پروان چڑھانے کے لیے بہت اہم ہیں۔
ڈاکٹر نعیم نے اس بارے میں حال ہی میں ایک مضمون شائع کیا، جس میں انہوں نے لکھا،''یہ ایک حقیقت ہے کہ لاکھوں پاکستانی نوجوان اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں اور اگر انہیں سماجی اور سیاسی جگہ دی جائے تو وہ سیاست میں موثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے 1984ء میں طلبا یونینوں پر پابندی نے پاکستانی معاشرے کی نوعیت ہی بدل دی کیونکہ یونیورسٹی کیمپس میں طلبا کی سیاست ختم ہو گئی اور اس کی جگہ مذہبی و نسلی عناصر نے لے لی۔‘‘
پاکستانی فوج سیاست سے دور ہی رہے گی، جنرل باجوہ
ڈاکٹر نعیم کا مزید کہنا تھا، ''یہ پابندی نوجوانوں میں بنیاد پرستی کا باعث بھی بنی، خاص طور پر جب 1980ء کی دہائی میں سوویت یونین کے خلاف افغان جنگ میں اور پھر 1990ء کی دہائی میں کشمیر کے جہاد میں مختلف نوجوانوں نے حصہ لیا۔ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ نوجوانوں میں تنقیدی سوچ اور لچک پیدا کرنے کے لیے سازگار ماحول پیدا کرے اور انہیں مستقبل کے فیصلہ سازی کے لیے تربیت دے۔‘‘
معیشت کی بد حالی
ملکی اور بین الاقوامی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے ڈاکٹر مونس احمر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان کا مستقبل تابناک بھی ہے اور تاریک بھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پچھتر سال گزرنے کے بعد بھی پاکستان میں جمہوریت نہیں پنپ سکی اور سیاسی جماعتیں کسی اعتبار سے بھی سیاسی جماعتیں کہلانے کے قابل نہیں۔ اس ملک کی معیشت ابھی تک اپنے پیروں پر کھڑی نہیں ہو سکی اور یہ قرضوں کے بوجھ تلے دب ہوئی ہے۔
مارچ اور احتجاج: سماجی، سیاسی اور معاشی اثرات
پاکستان کا جتنا جی ڈی پی ہے، اتنے ہی اس ملک پر قرضے ہیں۔ برآمدات بے انتہا کم، زر مبادلہ کے ذخائر بمشکل آٹھ بلین ڈالرز اور ریمیٹنسز 30 بلین ڈالر ہیں۔
ڈاکٹر احمر کا کہنا تھا،''پاکستان کا پڑوسی ملک بھی ساتھ ہی آزاد ہوا تھا، وہ اگلے پانچ چھ برسوں میں دنیا کی تیسری بڑی معیشت بننے جا رہا ہے۔ ایسے میں پاکستان کا مستقبل روشن ہونے کی نوجوانوں کی اُمید صرف اُسی وقت پوری ہو سکتی ہے، جب اس ملک میں بنیادی مسائل جیسے کہ معیشت، سیاست، ماحولیات اور خواتین سے جڑے مسائل حل کیے جائیں‘‘۔
ڈاکٹر احمر کا کہنا ہے کہ پاکستان کی نئی نسل ایک دوراہے پر کھڑی ہے، جس کی وجہ سے معاشرے میں انتہا پسندی اور جرائم حد درجہ بڑھ چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک اس ملک میں قانون کی حکمرانی نہیں ہو گی، تب تک حالات نہیں بدل سکتے۔
کشور مصطفیٰ