ہر گزرتے سال کے ساتھ ہمارا ملک گرم سے گرم تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس شدید گرمی میں بھی خواتین اپنے جسم پر کپڑے کی تین تہیں پہنتی ہیں۔ سب سے اوپر دوپٹہ، اس کے نیچے قمیض اور اس اس کے نیچے شمیض، اس سے نیچے نہیں جاتے ورنہ ملک میں زلزلہ آنے کا اندیشہ ہے۔
پچھلی گرمیوں میں ایک جاننے والے کے ہاں جانے کا اتفاق ہوا۔ ان کی بہو پسینے سے شرابور تھری پاس لان سوٹ میں کچن کا کام نمٹا رہی تھیں۔ ان کے دیور اور جیٹھ وہیں موجود تھے۔ وہ ان کی وجہ سے دوپٹہ اتار کر بھی نہیں رکھ سکتی تھیں اور اپنی قمیض بھی بار بار برابر کرنے پر مجبور تھیں۔
گزشتہ برس اپریل میں ہی ملک کے بہت سے حصوں میں درجہ حرارت اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا تھا۔ اس مہینے سندھ کے شہر دادو میں 47 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا تھا جبکہ کراچی میں 42.5 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت نوٹ کیا گیا۔ اگلے مہینوں کا حساب آپ خود لگا لیں، نہیں تو انٹرنیٹ کنگھال لیں۔
اس گرمی میں خواتین کو پہننا وہی پڑتا ہے، تھری پیس لان سوٹ۔ باہر نکلنا ہو تو خاندان کی عزت کے حساب سے اتنی ہی لمبی چوڑی چادر۔ خاتون کی رہائش کسی پوش علاقے میں ہو یا ان کا وہاں آنا جانا ہو تو ان تہوں میں کمی ہو سکتی ہے تاہم اس صورت میں معاشرہ ان پر چند لیبل چسپاں کر دیتا ہے۔ دعا منگی کیس سب کو یاد ہے۔ ان کے اغواء کار نے کہا تھا کہ وہ ان کے لباس کی وجہ سے سمجھتے تھے کہ وہ کسی امیر گھرانے سے ہیں۔
سردیوں میں خواتین کے کپڑوں کے لیے مارکیٹ میں کھدر، لینن اور اسی طرح کا دوسرا کپڑا آتا ہے۔ پچھلے کچھ برسوں سے برانڈز ان کپڑوں کے ساتھ شیفون کے دوپٹے دے رہے ہیں۔ ان کپڑوں پر سویٹر یا جیکٹ پہنیں تو اس کے نیچے نظر آنا والا قمیض کا بقیہ حصہ عجیب بھدا سا لگ رہا ہوتا ہے۔ پھر اس کے ساتھ کندھے پر پرس بھی ٹکانا پڑتا ہے، جو بار بار پھسل کر بازو میں آ گرتا ہے۔
اس شدید سردی کے حل کے لیے مناسب کپڑے خریدنے نکلیں تو جیب میں پیسے ہونے کے باوجود اپنی کسمپرسی شدت سے محسوس ہونے لگتی ہے۔ اول تو مناسب گرم اشیاء دستیاب نہیں ہیں، جو ہیں وہ بہت مہنگی ہیں۔ کچھ برانڈز نے تو سویٹرز کو مغربی ملبوسات کی کیٹیگری میں رکھا ہوتا ہے، جیسے مشرق میں سویٹر پہننے کا رواج ہی نہ ہو۔ پیچھے وہی لنڈا رہ جاتا ہے، جو کبھی سستا ہوتا تھا، اب اس کی قیمتیں بھی آسمان کو چھو رہی ہیں۔
پھر لنڈا پہن کر نکلنا تو اسی معاشرے میں ہوتا ہے، جہاں ہر فرد دوسرے کو اس کے جسم پر موجود لباس، جیب میں موجود روپوں، گھر اور گاڑی کے سائز کے حساب سے عزت اور توجہ دیتا ہے۔
مرد ماحول اور موسم کے لحاظ سے اپنا رہن سہن رکھنے کے لیے آزاد ہیں۔ گرمیاں آتے ہی گھروں میں مردوں کی قمیضیں اتر جاتی ہیں اور کچھ تو اسی طرح گھر سے باہر بھی نکل جاتے ہیں۔ خواتین کو اچانک گھر سے باہر جانا پڑے تو وہ پہلے اپنا حلیہ دیکھتی ہیں۔ میچنگ شلوار قمیض اور دوپٹے کے ساتھ بال بھی ٹھیک سے بناتی ہیں جبکہ مرد شلوار کے اوپر ٹی شرٹ پہن کر آ رام سے باہر جا سکتے ہیں۔
جمعہ آتا ہے تو بہت سے مرد سفید کرتا شلوار پہن لیتے ہیں، جو ان کا اندر باہر سب کے سامنے لا کر رکھ دیتا ہے۔ غالباً وہ اسی لیے پہنا جاتا ہے۔ دوسری طرف خواتین لان کے نیچے شمیض نہ پہنیں یا ان کا برا کا فیتہ نظر آ رہا ہو تو انہیں دیگر خواتین ہی اشارے کرنا شروع کر دیتی ہیں۔
ہمارے ہاں کپڑوں کا استری ہونا بھی لازمی ہے۔ پاکستان میں بجلی کے بِل سے سب پریشان ہیں لیکن کپڑے وہی استعمال کرنے ہیں، جنہیں استری کیے بغیر پہنا نہیں جا سکتا۔ کپڑے استری نہ ہوں تو لوگ بھی باتیں سناتے ہیں۔ ہم شاید یہ جان ہی نہیں سکے کہ دنیا ان مسائل سے کہیں آگے نکل چکی ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک میں کپڑوں پر موجود سلوٹیں ہونے کے باوجود نظر نہیں آتیں۔ دماغ جس چیز کو قبول کر چکا ہو، اسے نظریں دیکھ کر بھی دیکھ نہیں پاتیں۔
دوسری طرف ہم کچھ کریں نہ کریں، اپنے کپڑوں پر کریز ہمیں برابر چاہیے۔ گھروں سے روزانہ نکلنے والی لڑکیوں اور خواتین کو لباس کے معاملے میں آرام برقع میں ملتا ہے۔ بہت سی لڑکیاں اور خواتین روز روز نئے کپڑوں کی علت سے بچنے کے لیے ایک برقع ہی خرید لیتی ہیں۔ جو بھی پہنا ہو اس پر برقع پہن لیا، پیروں میں جوگرز پہن لیے، سر پر سکارف اوڑھ لیا۔ اور بس روز روز کے جھنجھٹ سے بھی بچ گئے اور معاشرے کی طرف سے ان کی پسندیدہ ترین قبولیت کی صورت بھی مل گئی۔
اس میں بھی ایک مسئلہ بہرحال رہتا ہے۔ وطنِ عزیز میں برقع کو بھی جگہ اور وقت کے حساب سے عزت دی جاتی ہے ورنہ چاہے برقع پہنا ہو چاہے جینز پہنی ہو عورت کے ساتھ ایک سا سلوک ہوتا ہے۔
لباس سے جڑی اتنی جھنجھٹوں کے ساتھ کس کا دماغ کچھ تعمیری سوچ سکتا ہے۔ دنیا لباس بارے پریشانیوں کو دور کہیں چھوڑ کر اپنے مسئلے سلجھا رہی ہے اور ہم آج بھی آنٹی شکیلہ کی بڑی بیٹی کی قمیض سے نظر آنے والی برا پر گوسپ کر رہے ہیں۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔