کیا یہ صدر پوٹن کی فتح ہے؟ حلب کی جنگ میں روس کا کردار
15 دسمبر 2016روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے شام کے صدر بشار الاسدر کی حمایت میں باغیوں کے خلاف فضائی حملے شروع کرنے کا جو فیصلہ کیا تھا، اس کا نتیجہ حلب سے باغیوں کی مکمل پسپائی کے طور پر نکلا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر یہ فیصلہ ماہرین اور سفارتکاروں کے نزدیک انتہائی متنازعہ رہا لیکن اس نے شامی صدر اسد کی حکومت کو ایک نئی زندگی ضرور عطا کی ہے۔ حلب پر شامی فوج کی چڑھائی اور پھر قبضہ بنیادی طور پر روس کے جنگی طیاروں کی بے پناہ بمباری کے وجہ سے ہی ممکن ہوا ہے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حلب پر روسی جنگی طیاروں کے شدید حملوں نے روسی صدر کی اپنی شورش زدہ جمہوریہ چیچنیا کے دارالحکومت پر سن 1999ء سے 2000ء تک کی جنگی کارروائی کی یاد تازہ کر دی ہے۔ گروزنی کے اندر فعال باغیوں کو بھی روسی فوج اور فضائیہ کی شدید مسلح کارروائیوں کا سامنا رہا تھا۔ انجام کار چیچنیا کے مسلح عسکریت پسند شہر سے پسپا ہو کر دور پہاڑوں کی جانب نکل گئے تھے۔ ایسے ہی مشرقی حلب کے باغی بھی پسپا ہو کر لوٹ گئے ہیں۔
روس نے مشرقی حلب پر بمباری کو رواں برس اکتوبر میں بھی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر روک دیا تھا لیکن اُس وقت تک روسی طیاروں نے باغیوں کی جڑیں ہلا کر رکھ دیں تھیں اور انہیں اپنے مضبوط مورچوں کو خالی کرنا پڑ گیا تھا۔ اسی بمباری کی آڑ میں شامی فوج کو بھی حوصلہ ملا اور وہ پسپا ہوتے باغیوں کے تعاقب میں آگے بڑھتی رہی۔
روسی دارالحکومت ماسکو میں قائم ایک تھنک ٹینک کارنیگی سینٹر کے تجزیہ کار الیکسی مالشینکو نے حلب کی صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ روس کے بغیر شامی فوج کے اندر حلب پر قبضہ کرنے کی استطاعت موجود نہیں تھی اور روس کی فضائی کارروائی میں بنیادی نکتہ حلب رہا کیونکہ بشار الاسد کے لیے حلب پر قبضہ کرنا ایک بہت بڑی فتح اور باغیوں کے لیے ایک بڑی شکست کے مساوی تھا۔
مالشینکو نے مزید کہا کہ شامی فوج کے ساتھ ساتھ روسی جنگی مشیروں نے بھی انتہائی مفید مشوروں سے فوج کی رہنمائی کی اور جنگی حالات میں وقت پر کیے گئے فیصلے کام آئے۔ روسی تجزیہ کار کے مطابق حلب کی جنگ میں ایک اعلیٰ روسی فوجی افسر کی ہلاکت کے بعد امکان پیدا ہو گیا تھا کہ روس اس کے جواب میں اپنی بھاری توپیں حلب پہنچانے کی کوشش کرے گا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔
تجزیہ کاروں نے یہ بھی کہا کہ مغربی اقوام کی چیخ و پکار اور ماسکو پر تنقید کے باوجود روس نے اپنی فوجی کارروائی جاری رکھی اور روس کی موجودگی کی وجہ سے مغربی طاقتیں بھی باغیوں کی امداد کے لیے شام میں کسی مداخلت سے دور رہیں۔ جنگی ماہرین کا خیال ہے کہ روس نے شام کی فوجی مہم میں اپنی ہائی ٹیک ہوائی قوت کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے۔