کینیا کے غیر مستحکم ہونے کا خطرہ، ڈی ڈبلیو کا تبصرہ
24 ستمبر 2013آندریا شمٹ کے بقول نیروبی میں غیر ملکیوں اور امراء کے پسندیدہ ترین شاپنگ مال کو نشانہ بنانے کا مقصد زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچاتے ہوئے دنیا بھر کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانا ہے۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ مسلم شدت پسند صرف کینیا کو خوف میں مبتلا کرنا نہیں چاہتے بلکہ اسرائیل سمیت عالمی برادری کو دہشت زدہ کرنا بھی ان کا مقصد ہے۔ یہ شاپنگ مال جزوی طور پر اسرائیل کی ملکیت ہے اور اس کے قریب اقوام متحدہ کا ایک دفتر بھی موجود ہے۔ اس وجہ سے اس عالمی ادارے کے متعدد ملازمین بھی یہاں خریداری کے لیے آتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو کی تبصرہ نگار مزید کہتی ہیں کہ یہ کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہے کہ مسلم انتہا پسند افریقہ یا کینیا یا پھر نائجیریا میں دہشت پھیلائیں۔
صومالی تنظیم الشباب کے دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے روابط ہیں۔ اس تنظیم نے ٹویٹر کے ذریعے نیروبی میں اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ الشباب نے مزید حملوں کی دھمکی بھی دی ہے۔ الشباب کے بقول صومالیہ میں اقوام متحدہ کے امن مشن میں کینیا کی فوجیں بھی حصہ لے رہی ہیں اور اسی وجہ سے دارالحکومت نیروبی کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس امن مشن میں کینیا کے علاوہ یوگنڈا اور برونڈی کی افواج بھی شامل ہیں۔ تاہم ان دستوں کی کارروائیوں کے بعد انتہاپسندوں کو صومالیہ میں کئی مقامات پر پسپائی کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اسی وجہ سے الشباب نے اپنی جنگ پڑوسی ممالک میں پھیلا دی ہے۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ نیروبی کے شاپنگ مال میں دہشت گردوں نے وہاں پر موجود لوگوں سے ان کے مذہب کے بارے میں سوال کیا اور مسلمان نہ ہونے کی صورت فوری طور پر گولی مار دی۔
کینیا کے صدر اوہورو کنیاٹا اور ان کے نائب ولیم روٹو کے خلاف عالمی فوجداری عدالت میں مقدمات درج ہیں۔ ان دونوں پر 2007ء کے انتخابات کے بعد انسانیت سوز مظالم میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ اب اس حملے نے کینیا کے لیے مزید مسائل پیدا کر دیے ہیں۔ آندریا شمٹ کے بقول اس حملے سے کینیا کے مذہبی اور نسلی بنیادوں پر تقسیم ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ ان حالات میں کینیا کی حکومت کو یہ بھی خیال کرنا ہو گا کہ ملک میں آباد 11فیصد مسلمانوں اور صومالی نژاد برادریوں کے خلاف پہلے سے موجود تعصب بڑھ نہ جائے۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ مشکلات کی شکار صومالیہ کی آبادی کے لیے ضروری ہے کہ انہیں اس شدت پسند گروپ سے چھٹکارا دلایا جائے۔ ساتھ ہی عالمی برادری کو بھی خاموش تماشائی بن کر یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ دہشت گرد کس طرح پڑوسی ممالک میں حملے کر رہے ہیں۔