گرامین بینک: محمد یونس ایک الزام سے بری ہوگئے
25 اپریل 2011محمد یونس کے قائم کردہ گرامین بینک کو عالمگیر شہرت حاصل ہے تاہم ملک کے اندر یہ افواہ رہی کہ محمد یونس نے اس مالیاتی ادارے کو ناروے کی جانب سے ملنی والی امدادی رقوم میں ہیر پھیر کی تھی۔ معاملے کی تحقیقات کے لیے قائم تحقیقاتی کمیشن نے اب انہیں بے گناہ قرار دیا ہے۔
محمد یونس سے متعلق ایک اور مقدمہ ملکی سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ مبینہ طور پر غیر قانونی عرصے تک گرامین بینک کے مینیجنگ ڈائریکٹر رہنے کی پاداش میں ان پر قائم اس سرکاری مقدمے کی اگلی سماعت 2 مئی کو ہوگی۔ اگرچہ ناروے کی حکومت نے خود محمد یونس کو بے گناہ قرار دیا تھا تاہم بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے محمد یونس کو ’غریبوں کا خون چوسنے والا‘ قرار دیا تھا۔
یونس پر ناروے کے ایک صحافی نے الزام عائد کیا تھا کہ خود کو ملنے والی کئی ملین یورو کی رقوم انہوں نے غریبوں کو قرضے دینے کے لیے نہیں بلکہ دوسرے نفع بخش کاروبار میں لگائی تھی۔ بنگلہ دیش کے وزیر خزانہ اے ایم اے مونس نے ڈھاکہ میں صحافیوں کو بتایا کہ بنگلہ دیشی حکومت نے اب اس معاملے میں ناروے حکومت کے فیصلے کو حتمی مان لیا ہے۔
گرامین بینک قرض داروں کو دی جانے والی رقوم پر 20 فیصد شرح ء سود وصول کرتا ہے جو دیگر بینکوں کے مقابلے میں کم ہے۔ محمد یونس کو مرکزی سرکاری بینک کے حکم پر گزشتہ ماہ گرامین بینک کے اعلیٰ ترین عہدے سے بر طرف کردیا گیا تھا۔ اس فیصلے کا سبب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ جب محمد یونس نے 1999ء میں خود کو غیر معینہ مدت کے لیے گرامین بینک کا مینیجنگ ڈائریکٹر مقرر کیا تھا تو انہوں نے ملکی مرکزی بینک سے اس کی منظوری نہیں لی تھی۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: مقبول ملک