گرین ہاؤس گیسوں کا ارتکاز تاریخ کی بلند ترین سطح پر، یو این
2 نومبر 2024اقوام متحدہ کے موسمیات اور ماحولیات کے ادارے ڈبلیو ایم او کے مطابق، کرۂ ارض کے درجہ حرارت میں اضافے کے اہم ترین اسباب میں شامل تین گیسوں جیسے کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین، اور نائٹروس آکسائیڈ کی فضا میں موجود مقدار میں ایک بار پھر گزشتہ برس اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار فضاء میں پہلے سے کہیں زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہے اور گزشتہ 20 سالوں میں اس میں 10 فیصد سے زائد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
ڈبلیو ایم او کا گرین ہاؤس گیسوں سے متعلق معلومات پر مبنی سالانہ دستاویز رواں برس 11 سے 22 نومبر تک آزر بائیجان کے دارالحکومت باکو میں ماحولیات سے متعلق اقوام متحدہ کی عالمی سربراہی کانفرنس (سی او پی 29) کے آغاز سے قبل جاری کیا گیا۔
ڈبلیو ایم او کے سربراہ سیلیسٹ ساؤلو کا کہنا ہے کہ، 'ایک اور سال، ایک اور ریکارڈ۔' ان کا مزید کہنا تھا، 'اس سے واضح ہے کہ ہم پیرس معاہدے کے مقاصد کے حصول کی جانب مؤثر طریقے سے نہیں بڑھ رہے ہیں۔'
2015 میں ہونے والے پیرس معاہدے میں مختلف ممالک نے عالمی درجہ حرارت کو قبل از صنعتی اوسط یعنی 1850 سے 1900 کی دہائیوں سے کم از کم دو ڈگری سیلسیئس سے نیچے رکھنے اور کم از کم 1 اعشاریہ پانچ ڈگری سیلسیئس تک محدود رکھنے پر اتفاق کیا تھا۔
تاہم ڈبلیو ایم او کے مطابق جب تک گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج جاری رہے گا اور یہ فضاء میں جمع ہوتی رہیں گی، عالمی درجہ حرارت میں میں مسلسل اضافہ ہوتا رہے گا۔
گزشتہ سال، عالمی درجہ حرارت 1850 کے بعد کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا تھا۔
کاربن ڈائی آکسائیڈ کی فضاء میں موجودگی کی مدت طویل ہوتی ہے، اسے مدنظر رکھتے ہوئے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو صفر تک لانے کے بعد بھی موجودہ درجہ حرارت میں کوئی نمایاں تبدیلی آنے میں وقت لگے گا۔
سال 2023 میں فضاء میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار 420 پی پی ایم جبکہ میتھین 1934 پی پی بی اور نائٹروس آکسائیڈ 336 پی پی بی تک پہنچ گئی تھی۔
1750 کے صنعتی دور سے قبل کی سطح کے مقابلے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی یہ مقدار 151 فیصد، جبکہ میتھین اور نائٹروس آکسائیڈکی مقدار 265 اور 125 فیصد تک بڑھ چکی ہے۔
سائلو کے مطابق یہ محض اعداد و شمار نہیں ہیں بلکہ ہماری زمین اور زندگیوں پر اس کے حقیقی اثرات مرتب ہوں گے۔
کاربن ڈائی آکسائیڈ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کا تقریباﹰ 64 فیصد بنتا ہے۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں سالانہ دو اعشاریہ تین پی پی ایم کا اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ مسلسل بارہواں سال ہے جب اس مقدار میں اضافہ دو پی پی ایم سے زائد رہا اور یہ سلسلہ 2010 سے 2020 کے دوران، فوسل فیول کے استعمال کے باعث گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں تاریخی اضافے کے باعث شروع ہوا۔
گزشتہ سال کے اعداد و شمار 2004 میں ریکارڈ کیے گئے 337.1 پی پی ایم سے 11.4 فیصد زیادہ ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ فضاء میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں اس رفتار سے اضافہ انسانی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ فضاء میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح صنعتی دور سے پہلے کی سطح سے 51 فیصد زیادہ ہے۔
آخری بار، تقریباً تین سے پانچ ملین سال پہلے، زمین پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح موجودہ سطح کے برابر تھی۔ اس دور میں درجہ حرارت دو سے تین ڈگری سیلسیس زیادہ تھا، اور سمندر کی سطح بھی 10 سے 20 میٹر بلند تھی۔
کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کا تقریباﹰ نصف حصہ فضاء میں باقی رہتا ہے، جبکہ باقی حصہ سمندر اور زمین کے ماحولیاتی نظام میں جذب ہو جاتا ہے۔
تاہم ڈبلیو ایم او کی نائب سربراہ کو بیریٹ نے خبردار کیا ہے کہ اب ہمیں ایسی صورتحال کا سامنا ہے جہاں ماحولیاتی نظام میں کوئی ایک منفی تبدیلی ممکنہ طور پر دیگر تبدیلیوں کا باعث بن سکتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ماحولیاتی تبدیلی اتنی شدت اختیار کر سکتی ہے کہ یہ ماحولیاتی نظام کو گرین ہاؤس گیسوں کے بڑے ذرائع میں تبدیل کر سکتی ہے۔ جنگلاتی آگ کے باعث فضاء میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں اضافہ ہو سکتا ہے، جبکہ بڑھتے ہوئے سمندری درجہ حرارت کی صورت میں سمندر فضاء میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ کو کم مقدار میں جذب کرے گا۔ اس کے نتیجے میں، فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بڑھتی ہوئی مقدار عالمی درجہ حرارت میں تیزی سے اضافے کا باعث بن سکتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ ماحولیاتی تغیرات انسانی معاشرے کے لیے شدید تشویش کا باعث ہیں۔
ح ف / ر ب (اے ایف پی)